پاکستان کی تاریخ کا بد ترین سیلاب اس وقت زیریں سندھ کے اضلاع کو تاراج کر رہا ہے جہاں مزید سینکڑوں دیہات زیرِ آب آنےسے دو لاکھ کے قریب افراد نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب بلوچستان سے آنے والا ایک بڑا سیلابی ریلہ اس وقت بالائی سندھ کے شہر شہداد کوٹ کے مضافات سے گزر رہا ہے۔
ایگزیکٹو انجینئر کوٹری بیراج عبد القادر پلیجو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جمعہ کی شام کوٹری بیراج سے گزرنے والے سیلابی ریلے کی مقدار اپ اسٹریم پہ ساڑھے سات لاکھ کیوسک جبکہ ڈائون اسٹریم پہ سات لاکھ پندرہ ہزار کیوسک ریکارڈ کی گئی، جو ان کے مطابق آئندہ چوبیس سے چھتیس گھنٹوں میں بڑھ کر ساڑھے آٹھ لاکھ کیوسک تک پہنچنے کا امکان ہے۔ پلیجو کے مطابق بیراج پہ واقع پل کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا ہے، جبکہ پاک فوج اور رینجرز کے دستے بیراج اور اس سے ملحقہ بندوں کی چوبیس گھنٹے نگرانی کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ کوٹری بیراج دریائے سندھ پہ واقع آخری بیراج ہے جس کے بعد یہ دریا صوبہ سندھ کے ساحلی ضلع ٹھٹہ میں وسیع ڈیلٹا تشکیل دیتے ہوئے بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔ دریائے سندھ کی گزر گاہ پہ واقع زیریں سندھ کے پانچ اضلاع ، نواب شاہ، مٹیاری، حیدرآباد ، جامشورواور ٹھٹہ میں ایمرجنسی نا فذ ہے جبکہ دریا کے حفاظتی پشتوں کی چوبیس گھنٹے نگرانی کی جارہی ہے۔
حکا م کے مطابق دریا میں پانی کی سطح بلند ہونے سے سب سے زیادہ نقصان ضلع ٹھٹھہ میں ہونے کا اندیشہ ہے جہاں کچے کا مکمل علاقہ زیرآب آنے سے ہزاروں افراد متاثر ہوں گے۔ ضلع کی انتظامیہ کی جانب سے ممکنہ متاثرہ علاقوں سے 65 ہزار سے زائد افراد کا انخلاء کرایا جا چکا ہے، جن کی بیشتر تعداد حکومت کی جانب سے مختلف علاقوں میں قائم کردہ سو سے زائد ریلیف کیمپوں میں مقیم ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عبد القادر پلیجو نے بتایا کہ کوٹری بیراج سے آگے دریائے سندھ 230 میل کا فاصلہ طے کرکے سمندر میں گرتا ہے ۔ ان کے مطابق دریا کی اس گزرگاہ پہ موجود دونوں اطراف کے 26 مقامات کو حساس قرار دیا گیا ہے جہاں فوجی دستے اور سول انتظامیہ کے اہلکار تعینات ہیں۔ ان کے مطابق سیلاب کی پیشگی اطلاع ملتے ہی ان بندوں کی مرمت کا کام شروع کردیا گیا تھا، تاہم اس کے باوجود پانی کا بہائو بڑھنے کی صورت میں دو سے تین مقامات پر بند ٹوٹنے کا خطرہ موجود ہے۔
ادھر دریا میں پانی چڑھنے سے ضلع جامشورو اور دادو کا کچے کا سو فیصد علاقہ زیرِ آب آجانے سے پانچ سو کے قریب دیہات سیلابی پانی میں ڈوب گئے ہیں۔
ضلع جامشورو میں حکومتِ سندھ کی جانب سے مقرر کردہ امدادی سرگرمیوں کے انچارج عبدالستار سومرو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دریائے سندھ میں پانی کی سطح میں اضافہ کے باعث ضلع میں 96 سے زائد دیہات زیرِ آب آچکے ہیں، جبکہ ضلع کے بڑے قصبات، بشمول انڑ پور، ہکڑو اور آمڑی بھی سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ سومرو نے بتایا کہ علاقے کی 30 ہزار سے زائد آبادی بے گھر ہوئی ہے جن میں سے گیارہ ہزار افراد حکومت کے تحت قائم کردہ 64 کیمپوں میں مقیم ہیں۔
ضلعی عہدیدار نے بتایا کہ سیہون شہر کے قریبی علاقوں میں سینکڑوں افراد سیلابی ریلے میں پھنس گئے تھے جنہیں پاکستان آرمی کے جوانوں نے محفوظ مقامات پہ منتقل کیا اور اس وقت بھی آرمی اور سول انتظامیہ 125 کشتیوں کے ذریعے ریسکیو آپریشن میں مصروف ہے۔
سومرو کا کہنا تھا کہ سیلابی پانی اس وقت انڈس ہائی وے سے ٹکرا رہا ہے جو بند کا کردار ادا کرتے ہوئے سیلابی ریلے کو شاہراہ کے دوسری جانب موجود آبادیوں تک پہنچنے سے روکے ہوئے ہے۔ تاہم سیلابی ریلے سے شاہراہ کے کچھ مقامات پر کٹائو کی اطلاعات بھی ہیں۔
دادو ضلع میں قائم کردہ فلڈ کنٹرول سیل میں موجود اہلکار شمس الدین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ضلع میں اب تک ساڑھے تین سو دیہات زیرِ آب آجانے سے ایک لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ جن میں سے 60 ہزار کے لگ بھگ متاثرین حکومتی ریلیف کیمپوں میں مقیم ہیں۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق ضلع میں گزشتہ تین روز کے دوران سیلاب سے گیارہ افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔
شمس کا کہناتھاکہ سیلابی ریلہ اب بھی دادو-مورو پل کے اوپر سے گزر رہا ہے جسے ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کیا جاچکا ہے اور سڑک پر سے گزرنے والے پانی کی سطح میں گزشتہ تین روز سے کوئی کمی نہیں آئی۔
ادھر ضلع حیدرآباد میں بھی ایمرجنسی نافذ ہے جبکہ کچے کے علاقے میں مقیم پانچ ہزار سے زائد افراد کا انخلاء مکمل کرلیا گیا ہے۔ ضلع کے ڈپٹی ریونیو افسر عابد سلیم قریشی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ضلع میں قائم کردہ ریلیف کیمپوں میں حیدرآباد ضلع کے متاثرین کے ساتھ ساتھ بالائی سندھ کے سیلاب سے متاثر ہونے والے اضلاع جیکب آباد، کشمور، اور قنبر شہدادکوٹ سے نقل مکانی کرنے والے دس ہزار سے زائد متاثرین بھی اب تک رجسٹرڈ ہوچکے ہیں، جن تک خوراک ، صاف پانی اور علاج معالجے کی سہولیا ت کی فراہمی کے لیے ضلعی انتظامیہ کو امدادی ایجنسیوں کی مدد درکار ہے۔
سیلاب سے زیریں سندھ کا وسیع پیمانے پر زرعی رقبہ زیرِ آب آجانے کے بعد کئی اہم فصلیں بھی تباہ ہو گئی ہیں جن سے متاثرہ علاقوں کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں غذائی قلت پیدا ہونے کے خدشہ بھی ظاہر کیا جارہاہے۔ محکمہ زراعت کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف ضلع جامشورو ہی میں 6000 ہیکٹرز پہ کاشت کپاس اور 7000 ہزار ہیکٹرز پہ کاشت کی گئی دیگر فصلیں، بشمول گنا، کیلا، پیازاور چنا، مکمل طور پر برباد ہوچکی ہیں۔
دوسری جانب بلوچستان کے گڑھی خیرو ویلج کی جانب سے آنے والا ایک بڑا سیلابی ریلہ اس وقت سندھ کے سرحدی شہر شہداد کوٹ کے مضافات سے گزر رہا ہے ۔ ڈی سی او ضلع قنبر شہدادکوٹ یاسین شر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شہدادکوٹ شہر کو سیلابی سے بچانے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے شہر سے باہر ہنگامی بنیادوں پر ایک مصنوعی بند تعمیر کرکے سیلابی ریلے کا رخ قبو سعید خان نامی قصبے کے طرف موڑا گیا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ انتظامیہ کی جانب سے احتیاطاًشہداد کوٹ شہر سے عورتوں، بچوں اور بزرگ افراد کے جزوی نقل مکانی کرائی گئی ہے جبکہ قبو سعید خان اور سیلابی ریلے کے راستے میں آنے والے دیگرتمام دیہات اور قصبے آبادی سے مکمل طور پر خالی کرالیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت شہداد کوٹ کے گرد بنائے گئے مصنوعی بند پر سیلابی ریلے کا شدید دبائو ہے جبکہ علاقے کے پچاس سے زائد دیہات بھی زیرِ آب آچکے ہیں۔
یاسین شر نے بتایا کہ ضلع میں قائم کردہ 45 ریلیف کیمپوں میں بیس ہزار سے زائد متاثرینِ سیلاب موجود ہیں جن کی امداد کے لیے اب تک نہ کوئی عالمی امدادی تنظیم پہنچی ہے اور نہ ہی کسی قسم کا امدادی سامان ہی مہیا کیا گیا ہے۔ شر کا کہنا تھا کہ متاثرین کی خوراک اور طبی ضروریات پورا کرنے کے لیے انہیں امدادی اداروں کی فوری مدد کی ضرورت ہے۔