سندھ میں ناراض وزرا ٴ کے استعفے17 روز بعد بھی معمہ

سندھ

اطلاعات کے مطابق مذکورہ وزراٴ کے استعفے تاحال وزیراعلیٰ ہاوٴس میں پڑے ہیں اور اُنہیں گورنر ہاوٴس میں منظوری کیلئے نہیں بھیجا گیا
سندھ میں نئے بلدیاتی نظام پر ناراض اتحادی جماعتوں کے وزراٴ کے استعفے 17روز گزرنے کے باوجود معمہ بنے ہوئے ہیں۔ ناراض اتحادیوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ حتمی ہے ، واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

سات ستمبر کو حکمراں جماعت پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) نے طویل مشاورت کے بعد سندھ میں نیا بلدیاتی نظام لانے کیلئے ترمیمی آرڈیننس( سندھ پیپلزلوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012ء) جاری کیا تھا جس پر ناراض ہو کر اے این پی ، مسلم لیگ فنکشنل اور نیشنل پیپلزپارٹی کے وزراٴ نے اپنے استعفے وزیراعلیٰ سندھ کو پیش کر دیے تھے۔

اطلاعات کے مطابق مذکورہ وزراٴ کے استعفے تاحال وزیراعلیٰ ہاوٴس میں پڑے ہیں اور اُنہیں گورنر ہاوٴس میں منظوری کیلئے نہیں بھیجا گیا۔ اِس عرصے کے دوران پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ اتحادیوں کو منانے کی کوشش کرتے رہے اور تینوں جماعتوں پر زور دیتے رہے کہ وزراٴ اور مشیران استعفے واپس لے کر دوبارہ حکومت میں شامل ہو جائیں اُن کے تحفظات دور کیے جائیں گے۔

لیکن پیر کو اُس وقت سید خورشید کی تمام کوششیں ناکام ہوتی نظر آئیں جب حکومت سے علیحدہ ہونے والے اتحادی جماعتوں اور وزراٴ نے کراچی میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی اور واضح کیا کہ انہوں نے اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کرلیا ہے، حکومت میں واپس جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

مسلم لیگ فنکشنل سندھ کے جنرل سیکریٹری امتیاز شیخ ، مسلم لیگ ق کے شہریار مہر، اور دیگرکا کہنا تھا کہ انہوں نے استعفے وزیراعلیٰ ہاوٴس کے حوالے کردئیے گئے ہیں، منظور کرنا حکومت کا کام ہے، اور آئندہ دوروز میں سندھ اسمبلی میں اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کی باقاعدہ درخواست دے دی جائے گی۔

مستعفی وزراٴ کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ اور صوبائی وزراٴ نے بلدیاتی آرڈیننس پڑھا ہی نہیں۔ وہ انہیں مناظرے کا چیلنج کرتے ہیں جس میں ثابت ہو جائے گا کہ نیا بلدیاتی آرڈیننس سندھ میں دو نئے نظام لارہا ہے جو سندھ کی تقسیم کی سازش ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق روٹھے اتحادیوں کو منانا حکومت کیلئے دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے ، اگر چہ آرڈیننس کی سندھ اسمبلی سے منظوری کیلئے ایم کیو ایم کو ملا کر اسے واضح عددی برتری حاصل ہے، تاہم ناراض اتحادیوں کے بغیر اگر وہ آرڈیننس پاس کراتی ہے تو اسے مرکز میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
دوسرے یہ کہ پی پی پی ایم کیو ایم کا ساتھ بھی نہیں چھوڑ سکتی ، کیونکہ ایسا کرنے سے اسے آئندہ انتخابات میں انتہائی منفی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔