افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیرِ داخلہ اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی پہلی مرتبہ منظرِ عام پر آ گئے ہیں۔ امریکہ نے سراج الدین حقانی کو انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں رکھا ہوا ہے۔
ہفتے کو سراج الدین حقانی افغان پولیس کے نئے اہل کاروں کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں آئے اور تقریب سے خطاب بھی کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ "میں آپ کے اعتماد اور تسلی کے لیے یہاں آیا ہوں۔
سراج الدین حقانی کا شمار ان لیڈروں میں ہوتا ہے، جو طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی منظر عام پر نہیں آئے۔ امریکہ کی انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں بھی ان کی مدہم تصویر نظر آتی ہے۔ ہفتے کی اس تقریب میں یہ پہلی بار واضح طور پر نظر آئے۔
یہ طالبان کے اس گروپ کے لیڈر تھے ، جن پر گزشتہ 20 برس کے دوران بد ترین پر تشدد کارروائیوں کا الزام ہے۔ امریکہ نے ان کی گرفتاری کے لیے اطلاع فراہم کرنے والوں کو ایک کروڑ ڈالر انعام کی پیش کش کی ہے۔ ان پر الزام ہے کہ یہ متعدد دہشت گرد حملوں کے ذمّہ دار ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستانی سفیر سمیت کئی ملکوں کے سفارتی نمائندے اس تقریب میں موجود تھے جب کہ ابھی تک کسی ملک نے طالبان کی حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
سراج الدین حقانی نے 2018 میں اپنے والد کے انتقال کے بعد اپنے گروپ کی قیادت سنبھالی۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے 2008 میں کابل کے سرینا ہوٹل پر حملہ کیا، جس میں کم از کم چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان پر افغانستان کے سابق صد حامد کرزئی پر قاتلانہ حملے کا بھی الزام عائد کی جاتا ہے۔
امریکہ کے ریوارڈز فار جسٹس پروگرام کے تحت اعلان میں کہا گیا ہے کہ ان کے القاعدہ سے قریبی تعلقات ہیں اور انہیں عالمی دہشت گرد کے طور پر بھی نامزد کیا گیا ہے۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ان کو متعدد بار امریکہ نے ڈرون کے ذریعے افغانستان اور پاکستان میں نشانہ بنایا۔ مگر وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
(اس خبر کا مواد خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لیا گیا ہے۔)