عرب لیگ اپنا ایک ہنگامی اجلاس منگل کو منعقد کر رہی ہے۔ اس اجلاس کی درخواست لبییا کی بین الاقومی طور پر تسلیم شدہ حکومت کی طرف سے کی گئی جسے داعش کے عسکریت پسندوں کے حملوں کا سامنا ہے۔
طبرق میں قائم حکومت نے ہفتے کو علاقائی اتحادیوں سے امداد کی درخواست کی جس میں (داعش کے خلاف) فضائی کارروائیوں کی درخواست بھی شامل ہیں۔
یہ درخواست سرت کے ساحلی شہر میں گزشتہ ہفتے ہونے والی درجنوں ہلاکتوں کے بعد کی گئی جس میں ایک گروپ جس میں مقامی افراد بھی شامل ہیں نے داعش کے جنگجوؤں پر حملہ کیا۔
داعش کے شدت پسندوں نے جون میں سرت شہر پر قبضہ کیا تھا اور اس کے علاوہ تین دوسرے علاقوں میں بھی اپنی موجودگی کا اعلان کیا تھا۔ اس کی طرف سے متعدد مرتبہ بڑے پیمانے پر لوگوں کے قتل کی تشہیر کی گئی۔ داعش لیبیا کے اندرونی تنازع کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔
مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک شام اور عراق میں داعش کے جنگجوؤں کے خلاف امریکی قیادت میں جاری فضائی مہم کا حصہ ہیں جبکہ لیبیا کے شدت پسند گروپ کے خلاف صرف مصر اور متحدہ عرب امارات نے مختصر دورانیے کی کارروائیوں میں حصہ لیا ہے۔
اس سے قبل اس سال لیبیا کے وزیر خارجہ محمد الدیری نے بین الاقوامی برداری سے لیبیا کی قومی فوج کی انسداد دہشت گردی اور داعش کا مقابلے کرنے کے لئے مدد کی درخواست کی تھی۔
ہفتے کو لیبیا میں اقوام متحدہ کے مشن کی طرف سے اس بات پر زور دیا گیا کہ "اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ لیبیا کے شہری اپنے اختلافات بھلا کر داعش کے عفریت کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہو جائیں"۔
لیبیا میں داعش کی موجودگی ملک میں پہلے سے جاری تشدد میں اضافے کا سبب بن رہی ہے جس کا سبب متحارب مسلح گروہ ہیں جن کا تعلق دو حریف حکومتوں سے ہے جن میں ایک طبرق میں قائم ہے جبکہ دوسری طرابلس میں ہے۔
چار سال قبل طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والے لیبیا کے رہنما معمر قدافی کی معزولی کے بعد اقوام متحدہ کی طرف سے امن قائم کرنے کی کوششوں کے باوجود ملک کی تعمیر نو کے اقدامات پائیدار ثابت نہیں ہو سکے۔