وفاقی حکومت کی لاپتا افراد کا مسئلہ حل کرنے کے لیے قائم کردہ کمیٹی نے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں دھرنے کے شرکا سے ملاقات کی اور ان کو دھرنا ختم کرنے پر راضی کر لیا۔
بعد ازاں کوئٹہ میں وفاقی وزرا اور وزیرِ اعلیٰ کے ہمراہ پریس کانفرنس میں وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ لاپتا افراد کے لواحقین کافی دنوں سے دھرنا دے کر بیٹھے تھے۔ انہوں نے لاپتا افراد کے لواحقین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے حکومت کی کوشش پر اعتماد کیا اور دھرنا ختم کر دیا ہے۔
دو ماہ قبل بلوچستان کے علاقے میں سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کیا تھا جس میں بعض ہلاک افراد کے لواحقین نے الزام عائد کیا تھا کہ مارے جانے والے افراد کا تعلق کسی دہشت گرد تنظیم سے نہیں تھا بلکہ ان کا نام لاپتا افراد کی فہرست میں شامل تھا۔
زیارت میں سیکیورٹی فورسز نے آپریشن فوج کے ایک کرنل کے اغوا اور قتل کے بعد شروع کیا تھا۔ کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے ان کے قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق جن دو دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا وہ فوج کے کرنل کو گولی مار کر فرار ہو رہے تھے۔
بعد ازاں کوئٹہ میں گورنر ہاؤس اور ایوانِ وزیرِ اعلیٰ کے قریب لاپتا افراد کے لواحقین نے دھرنا دیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس دھرنے کی قیادت آواران سے تعلق رکھنے والی سیما بلوچ کر رہی تھیں جو کہ صوبے کے وزیرِ اعلیٰ عبد القدوس بزنجو کا بھی آبائی علاقہ ہے۔ سیما بلوچ کے مطابق ان کے بھائی کو لاپتا ہوئے لگ بھگ چھ برس ہوئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے عزیزوں نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو ان کو عدالت میں پیش کیا جائے کیوں کہ زیارت واقعے کے بعد وہ تشویش میں مبتلا ہیں۔
SEE ALSO: زیارت میں جعلی مقابلے کے الزامات، لاپتا افراد کے لواحقین کے خدشات میں اضافہوفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس میں لاپتا افراد کے معاملے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ یہ مسئلہ حل ہو۔ یہ مسئلہ حل کیا جانا ریاست اور ملک کے لیے بہت ضروری ہے۔ امید ہے اس کو حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
رانا ثنا اللہ کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی قائم کردہ کمیٹی نے خود فیصلہ کیا کہ وہ دھرنا دینے والوں کے پاس جائے گی۔ اس حوالے سے کسی عدالت نے حکم نہیں دیا تھا، البتہ اگر کوئی عدالت حکم دیتی تو بھی اس پر عمل کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ موجودہ حکومت نے لاپتا افراد کا معاملہ حل کرنے کے لیے مئی کے آخر میں ایک کمیٹی قائم کی تھی جس کے سربراہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ ہیں جب کہ کمیٹی کے دیگر ارکان میں وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ، وفاقی وزیر اسعد محمود، شازیہ مری، اسرار ترین، فیصل سبزواری اور آغا حسن بلوچ شامل ہیں۔
اس مسئلے کے حوالے سے وفاقی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ ایک طرف لاپتا افراد کے لواحقین ہیں جب کہ دوسری جانب حکومت کے وہ ایجنسیاں ہیں جن پر ان لواحقین کے شکوک و شبہات یا الزامات ہیں۔ یہ معاملہ بالکل اس طرح نہیں ہے، جس طرح اس پر بحث کی جاتی ہے۔ اس میں بعض معاملات ایسے بھی ہیں، جن کو سامنے لانے سے یہ مسئلہ حل سے دور ہوجائے گا۔
حکومتی کمیٹی کے اقدامات پر انہوں نے آگاہ کیا کہ حکومت کی قائم کردہ کمیٹی نے دونوں طرف بات کی ہے اور معاملات کو سمجھا ہے، جس کے بعد مختلف راستے نکالنے کی جستجو کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو لاپتا افراد کے لواحقین کا تعاون درکار ہے جب کہ ان سیاسی جماعتوں کا بھی تعاون چاہیے جو اس پر اپنا مؤقف رکھتی ہیں۔
رانا ثنا اللہ نے بتایا کہ حکومت آنے والے برسوں یا مہینوں میں نہیں بلکہ ہفتوں میں اس مسئلے کا مؤثر حل نکالے گی۔ حکومت راستہ نکالنا چاہتی ہے اور کوشش ہے دو ماہ میں معاملہ حل ہو۔
انہوں نے لاپتا افراد کے لواحقین کے خدشات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مؤقف ہے کہ اگر ان کے عزیز کسی کی حراست میں ہیں تو ان کو کسی کارروائی میں ہلاک نہ کیا جائے۔ حکومتی کمیٹی نے یقین دہانی کرائی ہے حکومت اس حوالے سے پورا کردار ادا کرے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
لاپتا افراد جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کی سربراہی میں بنائے گئے کمیشن کی کارکردگی سے متعلق سوال پر وفاقی وزیرِ داخلہ نے جواب دیا کہ اس کمیشن نے کچھ کام کیا تھا کچھ افراد اس کمیشن کے ذریعے بازیاب ہوئے تھے۔ البتہ جو توقع تھی کہ یہ کمیشن معاملہ حل کر دے گا وہ نہیں ہو سکا۔
حکومت کی قائم کردہ کمیٹی کی رکن اور پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ عطا مری کا کہنا تھا کہ اگر کسی کا عزیز لاپتا ہو جائے تو اس گھر کے افراد کی کیا حالت ہو گی، اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ لاپتا افراد کا معاملہ اب حل ہونا چاہیے تاکہ ملک میں امن آ سکے اور اس حوالے سے بے چینی ختم ہو جب کہ پاکستان سے باہر اس معاملے کو پروپیگنڈے اور مخالفت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
حکومتی کمیٹی کے سربراہ اور وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کہا کہ 20 برس سے لاپتا افراد کا معاملہ ایک ناسور ہے، جس کا کوئی ایسا حل نکلنا چاہیے، جس سے پورا ملک ایک صفحے پر نظر آئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت کی کوشش ہے کہ اس معاملے کا حل نکالا جائے۔
حکومتی کمیٹی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کو مزید دو ماہ کا وقت دیا گیا ہے، جس کے بعد کمیٹی اس معاملے پر حتمی رپورٹ بھی دے گی جب کہ عملی اقدامات بھی کیے جائیں گے۔
پریس کانفرنس میں وزیر اعلیٰ بلوچستان عبد القدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ صوبے میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے عوام اور حکومت دونوں امتحان کا شکار ہیں۔
SEE ALSO: زیارت ہلاکتیں: بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس اعجاز سواتی کی سربراہی میں کمیشن قائملاپتا افراد کے معاملے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبائی سطح پر ای جوڈیشل کمیشن بھی بنایا گیا تھا جو مسلسل تین دن تک انتظار کرتا رہا کہ کوئی متاثر شخص آئے اور اس کمیشن میں شکایت جمع کرائے لیکن کسی نے بھی اس کمیشن میں شکایت جمع نہیں کرائی۔
انہوں نے ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ ایک شخص کی لاش ملی تو لواحقین نے دعویٰ کیا کہ وہ ان کا لاپتا عزیز ہیں اور اس کی تدفین کر دی گئی البتہ پھر کچھ عرصے بعد وہی شخص ایران سے پاکستان آیا اور اسی نے پریس کانفرنس بھی کی۔ لاپتا افراد کے حوالے سے اس طرح کیسز بھی موجود ہیں۔