خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع مہمند اور خیبر سے مبینہ طور پر لاپتا ہونے والے افراد کے لواحقین کا اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے صوبائی اسمبلی کے باہر 19 روز سے احتجاجی دھرنا جاری ہے۔
احتجاجی دھرنے میں شامل شرکا نے لاپتا ہونے والے افراد کی تصاویر دھرنے میں رکھی ہوئی ہیں جن کو مظاہرین کے بقول گزشتہ 10 سے 15 برس میں حراست میں لیا گیا تھا اور اب بھی وہ سرکاری تحویل میں ہیں۔
دھرنے میں شریک ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے زاہد حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان کا مطالبہ ہے کہ اگر یہ لوگ کسی بھی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث تھے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے اور قانون کے مطابق ان کے خلاف مقدمات چلائے جائیں۔
زاہد حسین کا دعویٰ تھا کہ جبری طور پر لاپتا کیے گئے افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے احتجاج کے حوالے سے آگاہ کیا کہ دھرنے میں ضلع مہمند سے لاپتا ہونے والے 142 افراد جب کہ ضلع خیبر سے 30 لاپتا افراد کی لواحقین نے کوائف کا اندراج کرایا ہے۔
احتجاجی دھرنے میں قبائلی اضلاع کے ساتھ ساتھ پشاور سے ملحقہ علاقے فرنٹیر ریجن کے افراد بھی شریک ہیں۔ اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے رئیس خان کا کہنا تھا کہ اس احتجاج میں لاپتا ہونے والے 220 افراد کے رشتہ دار شریک ہیں۔
زاہد حسین نے کہا کہ دھرنے میں ان لوگوں کے قریبی رشتہ دار، جیسے والدین، بھائی بہن یا اہلیہ و بچے، شریک ہیں جن کو 10 سے 15 سال قبل حراست میں لیا گیا تھا اور اس کے بعد ان زیرِ حراست افراد کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہے کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان افراد کو عدالتوں میں پیش کرے۔
زاہد حسین نے واضح کیا کہ لاپتا ہونے والے زیادہ تر افراد کے قریبی عزیز و اقارب عدالیہ اور سیکیورٹی فورسز سے بھی رابطے میں ہیں البتہ ان کو کوئی واضح معلومات فراہم نہیں کی جا رہیں۔ اسی لیے ان لواحقین نے مجبور ہو کر اب احتجاجی دھرنا دیا ہے۔
رئیس خان نے حکومت کی سرد مہری پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ متاثرہ افراد کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہے۔ حکامِ بالا نے ابھی تک یہ جاننے کی بھی کوشش نہیں کی کہ یہ لوگ کون ہیں؟ کس لیے احتجاج پر بیٹھے ہیں؟ ان کے بقول حکومت کو ان کے مطالبات سننے چاہئیں۔
رئیس خان کا کہنا تھا کہ ان کے مطالبات قانونی ہیں کہ اگر جبری طور پر لاپتا افراد میں کسی نے جرم کیا ہے تو اس کو قانون کے مطابق سزا دی جائے اور اگر کوئی بے گناہ ہے تو اس کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ حکومتی اداروں کو چاہیے کہ وہ ان افراد کے بارے میں، جو زندہ ہیں، عزیز و اقارب کو آگاہ کرے اور جو حیات نہیں ہیں ان کے بارے میں بھی بتائے۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات کامران بنگش نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت کا احتجاجی دھرنے میں شرکا سے رابطہ ہے اور ان کے مطالبات کو سن کر حل کرنے کی کوشش کی جاری ہے۔
حزبِ اختلاف میں شامل جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکانِ اسمبلی بھی دھرنے میں اظہار یکجہتی کے لیے شریک ہوتے رہے ہیں۔ جب کہ انہوں نے لاپتا افراد کی بازیابی کا مطالبات بھی کیے۔
خیبر پختونخوا میں لاپتا افراد کی درست تعداد کا اندازہ تو کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کے پاس نہیں ہے۔ البتہ رئیس خان اور زاہد حسین دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔
مبصرین کے مطابق لوگوں کے لاپتا ہونے یا دہشت گردی میں مبینہ ملوث افراد کو حراست میں لے جانے کا سلسلہ 06-2005 میں اس وقت شروع ہوا جب سوات، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، خیبر ایجنسی ، باجوڑ اور افغانستان سے ملحقہ دیگر سرحدی علاقوں میں پر تشدد واقعات شروع ہوئے۔
بعد ازاں 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی لائحہ عمل تشکیل دیا تھا۔
اس قومی لائحہ عمل میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دینے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں۔ ان فوجی عدالتوں سے 200 سے زیادہ مبینہ دہشت گردوں کو موت کی سزا سنائی تھی۔ فوجی عدالتوں کے درجنوں مقدمات میں سزاؤں پر عمل درآمد بھی ہوا تھا۔ البتہ بعد میں پشاور ہائی کورٹ کے انتقال کر جانے والے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ان سزاؤں کو کالعدم قرار دیا تھا جس کے خلاف حکومت نے سپریم کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کیا ہوا ہے۔