مصر کے حکام نے کہا ہے کہ جمعرات کی صبح قاہرہ میں ایک سکیورٹی عمارت کے باہر ایک بڑا کار بم دھماکا ہوا جس سے چھ پولیس اہلکاروں سمیت 29 افراد زخمی ہو گئے۔
داعش سے وابستہ ایک گروپ نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
دھماکے سے قرب و جوار کی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا اور اردگرد کے رہائشی علاقے میں عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ آور بارود سے بھری گاڑی کو سرکاری عمارت کے باہر کھڑا کر کے ایک دوسری گاڑی پر فرار ہو گیا۔
داعش سے وابستہ ’صوبائے سینا‘ نامی شدت پسند تنظیم نے ٹویٹر پر ایک بیان میں اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی۔
صدر مرسی کی 2013 میں معزولی کے بعد باغیوں نے سرکاری اہداف پر حملوں کے سلسلے میں سینکڑوں پولیس اہلکاروں کو ہلاک کیا ہے۔ حالیہ دنوں میں شدت پسندوں نے شہریوں کو بھی حملوں کا نشانہ بنایا۔
ملک کے بدترین حملوں کی ذمہ داری خود کو ’صوبائے سینا‘ کہنے والے ایک گروپ نے قبول کی جو داعش سے وفاداری کا دعویٰ کرتا ہے۔
تازہ ترین حملے سے چند دن قبل مصر نے دہشتگردی کے خلاف ایک نیا قانون نافذ کیا جس کے بارے میں ناقدین کا خیال ہے کہ یہ حکومت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو قانونی جواز فراہم کرنے کی ایک کوشش ہے۔
اس قانون کے تحت کسی ایسی تنظیم جسے حکومت ’’دہشتگرد عنصر‘‘ سمجھتی ہو، کو بنانے یا اس کی رہنمائی کرنے کی سزا موت یا عمر قید ہے۔ ایسی تنظیموں کی رکنیت کی سزا 10 سال تک قید ہو سکتی ہے۔
’’دہشتگرد تنظیموں‘‘ کی مالی معاونت کے لیے بھی عمر قید کی سزا تجویز کی گئی ہے، جو مصر میں پچیس سال ہے۔
قانون میں دہشتگردی کے واقعات میں حکومتی مؤقف کی تردید کرنے والے صحافیوں کے لیے 25 ہزار سے 64 ہزار ڈالر جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے بدھ کو نئے قانون کی مذمت کی ہے۔
مرسی کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد حکومت نے ان کی جماعت اخوان المسلمین کو دہشتگرد تنظیم قرار دے کر اس کے خلاف وسیع پیمانے پر کارروائیاں شروع کر دی تھیں اور اس کی بیشتر قیادت کو گرفتار کر لیا تھا۔
سکیورٹی فورسز نے مرسی کو بحال کرنے کے لیے مظاہروں کو بری طرح کچلا جس کے نتیجے میں 1000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔