بھارت میں ہر سال موسمِ سرما کا آغاز ہوتے ہی اسموگ اور فضائی آلودگی میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔
اسموگ اور فضائی آلودگی کے سبب جہاں پھیپھڑوں اور سانس سے متعلق بیماریاں جنم لیتی ہیں، وہیں نظامِ زندگی بھی متاثر ہوتا ہے۔
دہلی میں فضائی آلودگی اور اسموگ کی ایک بڑی وجہ کسانوں کی جانب سے فصلوں کی باقیات جلانے سے نکلنے والا دھواں سمجھا جاتا ہے۔
اسموگ اور فضائی آلودگی میں اضافے کی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے 'اینٹی اسموگ گن' اور پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔
گزشتہ ہفتے شہر میں ایئر کوالٹی انڈیکس 500 تک جا پہنچا تھا جو عالمی ادارہٴ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے تجویز کردہ پیمانے سے 30 گنا زیادہ ہے۔
ہفتے کو دہلی کی حکومت نے فضائی آلودگی میں اضافے کے سبب اسکول ایک ہفتے کے لیے بند اور تعمیراتی سرگرمیوں پر چار دن کے لیے پابندی عائد کرنے کا حکم دیا تھا۔
تاہم دہلی کے ایئر کوالٹی مینیجمنٹ کمیشن نے منگل کی رات کو صورتِ حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شہر میں تمام تعلیمی اداروں کو تا حکمِ ثانی بند رکھنے کا حکم جاری کیا تھا۔
حکم نامے میں شہر میں غیر ضروری مال بردار ٹرکوں کے داخلے پر پابندی اور تعمیراتی سرگرمیوں کو روکنے کے ساتھ ساتھ دفاتر میں کام کرنے والے شہریوں کو 21 نومبر تک گھروں سے کام کرنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔
علاوہ ازیں شہر میں 300 کلومیٹر کے دائرے میں آنے والے 11 تھرمل پاور پلانٹس میں سے چھ کو تاحکمِ ثانی بند کرنے کا کہا گیا ہے۔
شہر میں ہاٹ اسپاٹ مقامات پر دن میں کم از کم تین بار 'ایٹی اسموگ گنز' اور پانی کا چھڑکاؤ کرنے کا کہا گیا ہے۔
دہلی حکومت کی جانب سے یہ پابندیاں اس وقت سامنے آئیں ہیں جب چند روز قبل بھارت کی سپریم کورٹ نے شہر میں 'آلودگی کے سبب لاک ڈاؤن' کا کہا تھا البتہ دہلی حکومت نے اس سے معذرت کر لی تھی۔
سائنسی جزیرے 'دی لینسیٹ' میں 2020 میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دہلی میں فضائی آلودگی کی وجہ سے سن 2019 میں 17 ہزار 500 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
گزشتہ برس سوئس تنظیم 'آئی کیو ایئر' کی ایک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ دنیا کے 30 آلودہ ترین شہروں میں سے 22 شہر بھارت کے ہیں۔