ہرسال ڈیڑھ لاکھ افراد سانپ کے ڈسنے سےمرتےہیں

ہرسال ڈیڑھ لاکھ افراد سانپ کے ڈسنے سےمرتےہیں

کہتے ہیں کہ سانپ انسان کا بہت بڑا دشمن ہے۔ اس میں کوئی دو رائے بھی نہیں ۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال پچاس لاکھ افراد سانپ کے ڈسنے سے بری طرح زخمی ہوجاتے ہیں ۔ ان میں سے ایک لاکھ پچیس ہزار افراد ہلاک اورتقریباً تیس لاکھ معذور ہوجاتے ہیں۔حیرت انگیز طور پر ڈینگو بخار ، ہیضے اور دیگر خطرناک امراض سے اتنی اموات نہیں ہوتیں جتنی سانپ کے کاٹنے سے ہوتی ہیں۔

میلبورن کے عالمی تحقیقی منصوبے کے کوآرڈی نیٹر ڈیوڈ ولیم کے مطابق پاپوا نیو گنی کے کچھ صوبوں میں سانپ کے ڈسنے سے مرنے والوں کی تعداد ملیریا سے ہونے والی ہلاکتوں کے مقابلے میں دوگنا ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں جتنے لوگوں کو بھی سانپ ڈستے ہیں ان کی اکثریت ایشیاء خصوصاً بھارت میں رہتی ہے۔ بھارت دنیا کے ایسے ممالک میں سرفہرست ہے جہاں ہر سال پچاس ہزار افراد کو سانپ ڈس لیتے ہیں۔

پورے ایشیاء میں سال بھر میں کتنے افراد سانپ سے ڈسے جاتے ہیں یہ تعداد بتانا تو مشکل ہے کیو ں کہ عموماً لوگ سانپ کے کاٹنے کی شکایات کہیں درج نہیں کراتے۔ عام طور پر غریب کسان اور باغوں میں کام کرنے والے مزدور سانپوں کا آسان ہدف ہوتے ہیں۔ یہ کسان یا تو غربت کے باعث اپنا علاج نہیں کراپاتے یا ان کی ایسے اسپتالوں تک رسائی ممکن نہیں ہوپاتی جہاں سانپ کے کاٹے کے مریضوں کا علاج ہوتا ہے۔

عالمی ادارہ برائے صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سانپ اسی صورت میں حملہ آور ہوتا ہے جب کہ اسے ڈرایا جائے یا وہ خود کسی چیز سے ڈر جائے۔

سانپ کے ڈسنے سے سب سے زیادہ اموات برسات کے موسم میں ہوتی ہیں۔ سانپ عموماً پانی میں چھپ جاتے ہیں اور خطرہ بھانپ کر حملہ آور ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں جن موسموں میں کسان کھیتوں اور کھلیانوں میں زیادہ وقت گزارتے ہیں ان میں سانپ کے کاٹنے کے واقعات کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔

بھارت، بنگلہ دیش اور میانمار میں سیلابی موسموں میں سانپ کے کاٹنے کے واقعات میں یکدم اضافہ ہوجاتا ہے۔ عموماً یہاں سیلاب بھی زیادہ آتے ہیں اور سیلاب کے فوری بعد جیسے ہی مکانات اور سڑکوں کی تعمیر نو کا کام دوبارہ شروع ہوتا ہے سانپ کے ڈسنے کے حادثات بڑھ جاتے ہیں۔

امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ میانمار میں آنے والے حالیہ سیلاب میں سانپ کے حملو ں سے ہلاک یا زخمی ہونے والے افراد میں ڈرامائی حد تک تیزی آگئی تھی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سانپوں کے ڈسنے کے واقعات میں ہر سال کمی کی غرض سے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا ضروری ہے۔ لوگوں خصوصاً غریب کسانوں کو اس سلسلے میں تربیت دینا پڑے گی وہ سانپ کا حملے کی صورت میں فوری طور پر کیا کریں۔ انہیں ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لئے فرسٹ ایڈ ٹریننگ بھی دینا ہوگی۔

تھائی لینڈ میں سال بھر کے دوران دس ہزار افراد سانپوں کے حملے کا شکار ہوتے ہیں تاہم ان میں سے دس سے بھی کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں موت کی گود میں جانے سے کوئی نہیں روک پاتا جبکہ تھائی لینڈ کے پڑوسی ملک میانمار میں سال کے دوران دس ہزار میں سے پانچ سو سے ایک ہزار افراد سانپ کے ڈسنے سے چل بستے ہیں۔ یہ صورتحال نہایت گھمبیر ہے ۔ میانمار کی وزرت صحت نے اس صورتحال پر قابو پانے اور سالانہ اموات کو کم سے کم تر کرنے کے لئے رواں سال پانچ سالہ منصوبہ ترتیب دیا ہے ۔