سنوڈن کی روس میں سیاسی پناہ کی درخواست: ذرائع

پیوٹن کا کہنا ہے کہ اس سے قبل اُن کے ملک نے کسی شخص کو ملک بدر نہیں کیا اور یہ کہ اگر وہ راز افشا کرنے سے باز آئے، تو سنوڈن ماسکو میں رہ سکتا ہے
روسی امی گریشن حکام نے پیر کے روز بتایا کہ مفرور امریکی ایڈورڈ سنوڈن نے روس میں سیاسی پناہ کے لیے درخواست دی ہے۔

عہدے دار نے، جِس نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر روسی اور بین الاقوامی نامہ نگاروں سے گفتگو کی، بتایا کہ وکی لیکس کا ایک سرگرم کارکن جو سنوڈن کے ساتھ سفر کر رہا ہے، اتوار کی رات گئے یہ درخواست ماسکو کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ’ٹرانزٹ‘ سیکشن کے روسی قونصل خانے کے حوالے کی۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کہہ چکے ہیں کہ اِس سے قبل،اُن کے ملک نے کسی شخص کو ملک بدر نہیں کیا اور یہ کہ اگر وہ راز افشا کرنے سےباز آئے، تو سنوڈن ماسکو میں رہ سکتے ہیں۔

پیر کے دِن، پیوٹن نے کہا کہ اگر سنوڈن ماسکو میں رہنےکی خواہش رکھتے ہیں، تو پھر اُن کے لیے لازم ہے کہ وہ، بقول اُن کے، ہمارے امریکی ساجھے داروں کو نقصان پہنچانے کا کام بند کریں، ہر چند کہ میری طرف سے یہ کہنا حیران کن سا لگتا ہے۔

روسی صدر نے کہا کہ امریکی خفیہ ادارے کے سابق کانٹریکٹر ’روسی ایجنٹ نہیں ہیں‘۔

اُنھوں نے اس بات کو دہرایا کہ روسی خفیہ اداروں کا سنوڈن سے کوئی رابطہ نہیں، جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ آٹھ روز قبل ہانگ کانگ سے یہاں پہنچنے پر ماسکو کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے ’ٹرانزٹ‘ کے حصے میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔


دریں اثنا، اس الزام پر کہ امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے خلاف جاسوسی کی ہے، امریکی صدر براک اوبامانے کہا ہے کہ دنیا بھر کی انٹیلی جنس ایجنسیاں یہ سمجھنے کی جستجو کرتی ہیں کہ دیگر ممالک کیا سوچ رکھتی ہیں۔

تنزانیہ میں تقریر کرتے ہوئے، مسٹر اوباما نے کہا کہ امریکہ ابھی تک جرمن ہفت روزہ ’ ڈیئہ اشپیغل‘ میں نگرانی کے پروگرام کے بارے میں چھپنے والی رپورٹوں کا جائزہ لے رہا ہے، اور یہ کہ یورپی ہم منصبوں سے رابطہ کرکے جس معلومات کی خواہش کی گئی ہے، اُن کو وہ فراہم کردی جائے گی۔

متعدد یورپی قائدین نے، جِن میں فرانسسی صدر فروانسواں ہولاں اور یورپی یونین کےصدر مارٹن شلز شامل ہیں، ان الزامات پر سخت نکتہ چینی کی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے یورپی یونین کے دفاتر کی جاسوسی کی اور اُن کے داخلی کمپیوٹر نیٹ ورکس تک رسائی حاصل کی ہے۔