پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں (قومی اسمبلی) نے مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سروسز ایکٹ منظور کر لیا ہے۔ سروسز ایکٹ کی منظوری پر پاکستان کے مختلف حلقوں کی جانب سے مختلف آرا کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر بعض لوگ اسے قومی مفاد میں سیاسی جماعتوں کا بہترین فیصلہ قرار دے رہے ہیں تو وہیں بہت سے افراد اسے پاکستان میں سویلین بالادستی کے نظریے کے لیے بڑا دھچکہ قرار دے رہے ہیں۔
خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ کی ناقد سمجھی جانے والی حزبِ اختلاف کی بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر اس ترمیم کا ساتھ دینے پر بھی سخت تنقید کی جا رہی ہے۔
پشتون تحفظ تحریک کے رہنما محسن داوڑ نے ایکٹ کی منظوری کو پاکستانی پارلیمان کے لیے سیاہ ترین دن قرار دیا ہے۔ اپنے ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے ایکٹ کی مخالف آوازوں کو دبایا اور انہیں اس معاملے پر بولنے سے بھی روک دیا گیا۔
پاکستانی ٹوئٹر پر Army Act کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ جس میں صارفین اپنی آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔
ایک صارف میمونہ نے آرمی ایکٹ کی منظوری پر دلچسپ تبصرہ کیا۔ اپنے ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ اب پاکستان میں ٹماٹر 50 روپے کلو، پیٹرول 60 روپے لیٹر ملے گا اور پاکستان کی معیشت دباؤ سے نکل آئے گی اور ڈالر بھی 90 روپے کا ہو جائے گا۔
سبحان عالم نامی صارف نے لکھا ہے کہ سب کو بہت مبارک ہو۔ قومی اسمبلی نے 'جمہوریت کی موت' ایکٹ 2020 منظور کر لیا۔
ایم علی نامی صارف نے لکھا ہے آرمی ایکٹ کی منظوری ہمارے دشمنوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔
اسفند یار بھٹانی نامی صارف نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کے 'وائس آف امریکہ' کو دیے گئے انٹرویو کا ایک حصہ شیئر کیا۔ جس میں وہ اُصولوں پر ڈٹے رہنے کے عزم کا اظہار کر رہی ہیں۔
عبدل نامی صارف نے آرمی ایکٹ میں ترامیم کی منظوری کا خیر مقدم کیا ہے۔ اپنے ٹوئٹ میں عبدل نے لکھا ہے کہ ہمیں وہ کرنا چاہیے جو پاکستانی عوام چاہتے ہیں۔
جمعیت علماء اسلام (ف) اور جماعت اسلامی کو ترامیم کی حمایت نہ کرنے پر سراہا بھی جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں کثرت رائے سے منظوری کے بعد فوجی سربراہوں کی مدت ملازمت سے متعلق ایکٹ ایوان بالا (سینیٹ) میں پیش کیا جائے گا۔ جہاں سے منظوری اور صدر پاکستان کے دستخطوں کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔