پاکستان میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ میں جاری کارروائی براہِ راست ٹی وی پر نشر کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین اسے انوکھا تجربہ قرار دے رہے ہیں اور اس پر اپنا ردِعمل ظاہر کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنا منصب سنبھالنے کے پہلے ہی دن عدالتی کارروائی کو براہِ راست سرکاری ٹی وی پر نشر کرنے کی ہدایت کی تھی۔
سپریم کورٹ میں جاری 'پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ' کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت شروع ہوئی جس میں وکلا کے دلائل جاری ہیں۔
بعض صارفین عدالتی کارروائی کو براہ راست نشر کرنے کو انقلابی قدم قرار دے رہے ہیں جب کہ بعض کے نزدیک کورٹ میں وکلا کے دلائل، ججز کے ان سے سوالات اور کمرۂ عدالت میں پیش آنے والے واقعات دل چسپ تجربہ ہے۔
’’منی انقلاب۔۔۔‘‘
صحافی مظہر عباس نے سوشل میڈیا پلیٹ فورم ’ایکس‘ (سابق ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں کہا کہ سپریم کورٹ کی کارروائی کی لائیو نشریات ایک مختصر اور ’منی انقلاب‘ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اگرچہ ایک اچھا آغاز ہے لیکن حقیقی عدالتی انقلاب صرف بڑے پیمانے پر اصلاحات کے ذریعے ہی لایا جاسکتا ہے۔ انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے۔
A sort of %27mini-revolution%27 in the Supreme Court. Live coverage from Court No. 1, new CJP Justice #QaziFaezisa refuse to take guard of honor. Indeed a good beginning but the real judicial revolution can only come through drastic reforms. Justice must be seen to be done.
— Mazhar Abbas (@MazharAbbasGEO) September 18, 2023
وزیرِ اعظم شہباز شریف کے سابق مشیر اور صحافی فہد حسین نے عدالتی کارروائی کی براہِ راست کوریج پر تبصرے میں کہا کہ یہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا انقلابی قدم ہے جس سے عدالت، اسے چلانے والوں اور اس میں پیش ہونے والے دلائل سے متعلق عوامی تاثر کی نئی جہات سامنے آئیں گی۔
The live coverage of #SupremeCourtofpakistan proceedings is a revolutionary step by CJ Qazi Faez Isa. It is riveting and will produce very interesting dynamics in terms of perceptions of the court and those who run it. And argue in it. Buckle up https://t.co/jyC7ctLq7k
— Fahd Husain (@Fahdhusain) September 18, 2023
تحریکِ انصاف کے سابق رکنِ قومی اسمبلی علی محمد خان نے سپریم کورٹ کی لائیو کوریج کو قابلِ ستائش اقدام قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب عدالت شفافیت کی جانب بڑھ رہی ہے تو امید ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں بھٹو کے بعد سب سے زیادہ اہمیت کے حامل سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے مقدمے کی کارروائی بھی اسی شفافیت سے چلائی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان کے مقدمات کی کارروائی براہ راست نشر کرنا ممکن نہ ہو تو کم از کم اسے جیل میں ان کیمرا نہیں ہونا چاہیے۔
Good move by CJ Qazi Faez Isa sahb to live telecast the Supreme Court proceedings. The people of Pakistan will see the SC proceedings for the first time in their lives and all legal practitioners and students through the country will have opportunity to observe & learn first…
— Ali Muhammad Khan (@Ali_MuhammadPTI) September 18, 2023
علی محمد خان کا کہنا تھا کہ عمران کا اوپن ٹرائل ہونا چاہیے اور اس تک میڈیا کو بھی رسائی حاصل ہونی چاہیے۔
سابق وزیرِ داخلہ آفتاب احمد شیرپاؤ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں عدالتی کارروائی کی لائیو کوریج کو قابلِ تحسین اقدام قرار دیا اور کہا کہ اس عمل سے عوام کا اس ادارے اور معزز ججز پر اعتماد میں اضافہ ہو گا۔
سپریم کورٹ سے کاروائی کا براہ راست نشر ہونا یقیناً ایک تاریخی دن اور نہایت خوش آئند اقدام ہے،اس طرز عمل کے دور رس اور مثبت نتائج آئیں گے، نظام انصاف میں شفافیت اور عدلیہ کا وقار بلند ہوگا۔ اس عمل سے عوام کا اس ادارے اور معزز ججز پر اعتماد میں اضافہ ہوگا۔#SupremeCourtofpakistan… pic.twitter.com/3dHr3vj8ir
— Aftab Khan Sherpao (@AftabSherpao) September 18, 2023
صحافی مطیع اللہ جان نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ نئے چیف جسٹس نے فل کورٹ اجلاس میں براہ راست نشریات کی منظوری دے کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ پورے پاکستان میں خصوصاً نوجوانوں میں قانون اور آئین سے آگاہی معاشرے میں جو تبدیلی لائے گی اُسے کوئی اسٹیبلشمنٹ بھی کنٹرول نہیں کر سکے گی۔
نئے چیف جسٹس نے فل کورٹ اجلاس میں براہ راست نشریات کی منظوری لیکر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے، پورے پاکستان میں خصوصاً نوجوانوں میں قانون اور آئین سے آگاہی معاشرے میں جو تبدیلی لائیگی اُسکو کوئی اسٹیبلشمنٹ بھی کنٹرول نہیں کر سکے گی۔ لائیو نشریات قانون کے رکھوالوں کیساتھ سرحدوں کے… pic.twitter.com/5Mo1XYXXQj
— Matiullah Jan (@Matiullahjan919) September 18, 2023
انہوں نے مزید لکھا کہ لائیو نشریات قانون کے رکھوالوں کے ساتھ سرحدوں کے رکھوالوں کو بھی آئین، قانون، قواعد اور منطق پر سوچنے، سمجھنے اور بولنے پر مجبور کر دے گی۔
انسانی حقوق کے کارکن اور وکیل جبران ناصر نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل اور لائیو کوریج سے چیف جسٹس نے ثابت کردیا ہے کہ وہ پیش رو کی طرح اپنے رفقائے کار کے اختلافِ رائے سے خوف زدہ نہیں ہیں۔
CJP Isa through a full court and live transmission has at least shown that he unlike his predecessor isn%27t scared of dissent from his colleagues. Under the previous CJP dissenting notes would be deleted from the Supreme Court website and today the new CJP wants entire proceedings… https://t.co/AS0DIc2XW3
— M. Jibran Nasir 🇵🇸 (@MJibranNasir) September 18, 2023
ان کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس کے دور میں ججوں کے اختلافی نوٹ سپریم کورٹ کی عدالت سے ہٹا دیے جاتے تھے اور آج چیف جسٹس تمام عدالتی کارروائی عوام کے علم میں لا رہے ہیں۔
فل کورٹ کی لائیو کوریج کے قانونی پہلو اور اثرات کے علاوہ کئی صارفین کے لیے یہ دل چسپی کا باعث بھی ہے۔
صحافی و تجزیہ نگار عنبر شمسی نے سوشل میڈیا پلیٹ فورم ایکس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ فل کورٹ کی لائیو اسٹریمنگ ایشیا کپ کے فائنل سے زیادہ دل چسپ ہے۔
The full court livestream is more entertaining than the Asia Cup final.
— Amber Rahim Shamsi (@AmberRShamsi) September 18, 2023
’لوگ جو زبان نہیں سمجھتے‘
عدالتی کارروائی کے دوران وکلا کے انگریزی زبان میں دلائل دینے اور ججز کے سوال پوچھنے پر بھی بعض صارفین نے کے تبصرے سامنے آئے۔
ایکس کے ایک صارف ذوالفقار حیدر نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ ایک ایسے ملک کی سب سے بڑی عدالت کی کارروائی اس زبان میں براہِ راست نشر کی جارہی ہے جو کہ اس کی اکثریت کو سمجھ نہیں آتی اور نہ ہی اس ملک کی قومی زبان ہے۔
ایک ایسےملک کی سب سے بڑی عدالت کی عدالتی کاروائی براہ راست اس زبان میں نشر کی جا رہی ہے جو کہ اس ملک کی تقریباً 70 فیصد عوام کو سمجھ نہیں آتی ۔اور نہ ہی اس ملک کی قومی زبان ہے@AbdulqadirARY @ARYSabirShakir #SupremeCourtofpakistan
— zulfiqar haider (@zulfiqa70205738) September 18, 2023
عبدالرافع نامی صارف نے بھی عدالتی کارروائی میں انگریزی کے استعمال پر انگریزی ہی میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ لوگ اردو میں کیوں بات نہیں کرتے۔ ہر کوئی انگریزی بول رہا ہے۔
Why are they not talking in Urdu??? Everyone speaking English.. so underrated.. #SupremeCourtofpakistan #SupremeCourt pic.twitter.com/cQhFZtEIj5
— Abdul Rafay (@bafay03) September 18, 2023
عام طور پر عدالتی کارروائی میں ججز اور وکلا کے درمیان تند و تیز مکالمے بھی ہوتے ہیں اور جج صاحبان وکیلوں سے ایک کے بعد ایک سوالات پوچھتے ہیں۔
تاہم لائیو یہ مناظر دیکھ کر ججز کے سوالات پر دلائل پیش کرنے والے وکلا کی بعض مواقع پر بے بسی بھی میمز اور تبصروں کا موضوع بنے۔
اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے صحافی اجمل جامی نے پنجابی میں تبصرہ کیا کہ "بھائی صاحب وکیل کو بھی بولنے دیں۔ آپ کی مہربانی۔"
Oh paayen! Wakeel nu v tay bollan dawo yaar… tuwaadi mairbaani..!
— Ajmal Jami (@ajmaljami) September 18, 2023
ایک صارف انیس خان ترین نے ججز کے بار بار وکلا کے ٹوکنے پر ایک فلم سین کا مختصر حصہ شیئر کیا جس میں اکشے کمار اپنے گرد کھڑے لوگوں کے کچھ بولنے پر ایک تھپڑ رسید کرتے ہیں اور کہتے ہیں’بیچ میں نہ پول۔‘
Judges belike:As soon as lawyers try to establish their argument.#viralvideo#SupremeCourtofpakistan#SupremeCourt#QaziFaezEssa#QaziFaizIsa pic.twitter.com/ZkJQ1BU57S
— Anees Khan Tareen (@anees_tareen) September 18, 2023
داور بٹ نامی ایک صارف نے ایک میم میں بتایا کہ وکیل اپنے بارے میں کہا سوچتے ہیں، ان کے بارے میں عوام کیا سوچتے ہیں جب کہ عدالت میں وہ کیا کرتے ہیں۔
— Dawar Butt (@theLahorewala) September 18, 2023
’اب آپ کو ہماری مشکلات کا اندازہ ہوا‘
کسی بھی اہم کیس کی کارروائی کے بارے میں عدالتی رپورٹر میڈیا کے ذریعے تفصیلات فراہم کرتے ہیں۔ عدالتی کارروائی کی لائیو کوریج پر عدالتی رپورٹرز نے بھی اپنے انداز میں تبصرہ کیا۔
عدالتی رپورٹر ثاقب بشیر نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ چار چار گھنٹے کی سماعتوں کو سن کر چار منٹ میں کورٹ رپورٹرز عوام کے سامنے کیسے رکھتے ہیں یہ تو عوام کو سمجھ آ رہی ہو گی۔
چار چار گھنٹے کی سماعتوں کو سن کر چار منٹ میں کورٹ رپورٹرز عوام کے سامنے کیسے رکھتے ہیں یہ تو عوام کو سمجھ آرہی ہو گی https://t.co/iAeXGLNqfl
— Saqib Bashir (@saqibbashir156) September 18, 2023
انہوں نے اپنی ایک اور پوسٹ میں لکھا کہ فل کورٹ براہ راست عدالتی کارروائی کا ایک دلچسپ اینگل یہ بھی ہے جتنی کلئیر آواز ٹی وی پر ججز کی سنی جا رہی ہے اتنی کلئیر آواز تو کورٹ روم نمبر ایک میں بھی نہیں آتی۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ایک تو کورٹ کے اندر آواز گونجتی ہے دوسرا کورٹ رپورٹرز کو آواز واضح طور پر سننے کے لیے وہاں لگے اسپیکرز کے بالکل قریب رہنا پڑتا ہے۔
عدالتی رپورٹنگ سے وابستہ رہنے والی ایک اور صحافی عفت حسن رضوی نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ "پہلے صرف کورٹ رپورٹر جھیلتے تھے، اب پوری قوم جھیلے۔"
پہلے صرف کورٹ رپورٹر جھیلتے تھے، اب پوری قوم جھیلے۔ دیکھیں کہ کیسے ججز کے دھڑے بندی بینچ سے نظر آتی ہے، دیکھیں کہ کیسے وکلاء کیس ٹالنا چاہیں،ٹائم پاس کرنا چاہیں تو کوئی انہیں روک نہیں سکتا اور دیکھیں کہ کبھی کیس آپ ہی آپ ججز کے درمیان لڑا جاتا ہے وکیل پنگ پانگ کی بال ہوتا ہے۔ https://t.co/AAxCUYFGTq
— Iffat Hasan Rizvi (@IffatHasanRizvi) September 18, 2023
انہوں نے لکھا کہ دیکھیں کہ کیسے ججز کے دھڑے بندی بینچ سے نظر آتی ہے، دیکھیں کہ کیسے وکلا کیس ٹالنا چاہیں، ٹائم پاس کرنا چاہیں تو کوئی انہیں روک نہیں سکتا اور دیکھیں کہ کبھی کیس آپ ہی آپ ججز کے درمیان لڑا جاتا ہے اور وکیل پنگ پانگ کی بال ہوتا ہے۔