پاکستان میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ میں جاری کارروائی براہِ راست ٹی وی پر نشر کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین اسے انوکھا تجربہ قرار دے رہے ہیں اور اس پر اپنا ردِعمل ظاہر کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنا منصب سنبھالنے کے پہلے ہی دن عدالتی کارروائی کو براہِ راست سرکاری ٹی وی پر نشر کرنے کی ہدایت کی تھی۔
سپریم کورٹ میں جاری 'پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ' کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت شروع ہوئی جس میں وکلا کے دلائل جاری ہیں۔
بعض صارفین عدالتی کارروائی کو براہ راست نشر کرنے کو انقلابی قدم قرار دے رہے ہیں جب کہ بعض کے نزدیک کورٹ میں وکلا کے دلائل، ججز کے ان سے سوالات اور کمرۂ عدالت میں پیش آنے والے واقعات دل چسپ تجربہ ہے۔
’’منی انقلاب۔۔۔‘‘
صحافی مظہر عباس نے سوشل میڈیا پلیٹ فورم ’ایکس‘ (سابق ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں کہا کہ سپریم کورٹ کی کارروائی کی لائیو نشریات ایک مختصر اور ’منی انقلاب‘ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اگرچہ ایک اچھا آغاز ہے لیکن حقیقی عدالتی انقلاب صرف بڑے پیمانے پر اصلاحات کے ذریعے ہی لایا جاسکتا ہے۔ انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کے سابق مشیر اور صحافی فہد حسین نے عدالتی کارروائی کی براہِ راست کوریج پر تبصرے میں کہا کہ یہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا انقلابی قدم ہے جس سے عدالت، اسے چلانے والوں اور اس میں پیش ہونے والے دلائل سے متعلق عوامی تاثر کی نئی جہات سامنے آئیں گی۔
تحریکِ انصاف کے سابق رکنِ قومی اسمبلی علی محمد خان نے سپریم کورٹ کی لائیو کوریج کو قابلِ ستائش اقدام قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب عدالت شفافیت کی جانب بڑھ رہی ہے تو امید ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں بھٹو کے بعد سب سے زیادہ اہمیت کے حامل سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے مقدمے کی کارروائی بھی اسی شفافیت سے چلائی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان کے مقدمات کی کارروائی براہ راست نشر کرنا ممکن نہ ہو تو کم از کم اسے جیل میں ان کیمرا نہیں ہونا چاہیے۔
علی محمد خان کا کہنا تھا کہ عمران کا اوپن ٹرائل ہونا چاہیے اور اس تک میڈیا کو بھی رسائی حاصل ہونی چاہیے۔
سابق وزیرِ داخلہ آفتاب احمد شیرپاؤ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں عدالتی کارروائی کی لائیو کوریج کو قابلِ تحسین اقدام قرار دیا اور کہا کہ اس عمل سے عوام کا اس ادارے اور معزز ججز پر اعتماد میں اضافہ ہو گا۔
صحافی مطیع اللہ جان نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ نئے چیف جسٹس نے فل کورٹ اجلاس میں براہ راست نشریات کی منظوری دے کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ پورے پاکستان میں خصوصاً نوجوانوں میں قانون اور آئین سے آگاہی معاشرے میں جو تبدیلی لائے گی اُسے کوئی اسٹیبلشمنٹ بھی کنٹرول نہیں کر سکے گی۔
انہوں نے مزید لکھا کہ لائیو نشریات قانون کے رکھوالوں کے ساتھ سرحدوں کے رکھوالوں کو بھی آئین، قانون، قواعد اور منطق پر سوچنے، سمجھنے اور بولنے پر مجبور کر دے گی۔
انسانی حقوق کے کارکن اور وکیل جبران ناصر نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل اور لائیو کوریج سے چیف جسٹس نے ثابت کردیا ہے کہ وہ پیش رو کی طرح اپنے رفقائے کار کے اختلافِ رائے سے خوف زدہ نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس کے دور میں ججوں کے اختلافی نوٹ سپریم کورٹ کی عدالت سے ہٹا دیے جاتے تھے اور آج چیف جسٹس تمام عدالتی کارروائی عوام کے علم میں لا رہے ہیں۔
فل کورٹ کی لائیو کوریج کے قانونی پہلو اور اثرات کے علاوہ کئی صارفین کے لیے یہ دل چسپی کا باعث بھی ہے۔
صحافی و تجزیہ نگار عنبر شمسی نے سوشل میڈیا پلیٹ فورم ایکس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ فل کورٹ کی لائیو اسٹریمنگ ایشیا کپ کے فائنل سے زیادہ دل چسپ ہے۔
’لوگ جو زبان نہیں سمجھتے‘
عدالتی کارروائی کے دوران وکلا کے انگریزی زبان میں دلائل دینے اور ججز کے سوال پوچھنے پر بھی بعض صارفین نے کے تبصرے سامنے آئے۔
ایکس کے ایک صارف ذوالفقار حیدر نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ ایک ایسے ملک کی سب سے بڑی عدالت کی کارروائی اس زبان میں براہِ راست نشر کی جارہی ہے جو کہ اس کی اکثریت کو سمجھ نہیں آتی اور نہ ہی اس ملک کی قومی زبان ہے۔
عبدالرافع نامی صارف نے بھی عدالتی کارروائی میں انگریزی کے استعمال پر انگریزی ہی میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ لوگ اردو میں کیوں بات نہیں کرتے۔ ہر کوئی انگریزی بول رہا ہے۔
عام طور پر عدالتی کارروائی میں ججز اور وکلا کے درمیان تند و تیز مکالمے بھی ہوتے ہیں اور جج صاحبان وکیلوں سے ایک کے بعد ایک سوالات پوچھتے ہیں۔
تاہم لائیو یہ مناظر دیکھ کر ججز کے سوالات پر دلائل پیش کرنے والے وکلا کی بعض مواقع پر بے بسی بھی میمز اور تبصروں کا موضوع بنے۔
اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے صحافی اجمل جامی نے پنجابی میں تبصرہ کیا کہ "بھائی صاحب وکیل کو بھی بولنے دیں۔ آپ کی مہربانی۔"
ایک صارف انیس خان ترین نے ججز کے بار بار وکلا کے ٹوکنے پر ایک فلم سین کا مختصر حصہ شیئر کیا جس میں اکشے کمار اپنے گرد کھڑے لوگوں کے کچھ بولنے پر ایک تھپڑ رسید کرتے ہیں اور کہتے ہیں’بیچ میں نہ پول۔‘
داور بٹ نامی ایک صارف نے ایک میم میں بتایا کہ وکیل اپنے بارے میں کہا سوچتے ہیں، ان کے بارے میں عوام کیا سوچتے ہیں جب کہ عدالت میں وہ کیا کرتے ہیں۔
’اب آپ کو ہماری مشکلات کا اندازہ ہوا‘
کسی بھی اہم کیس کی کارروائی کے بارے میں عدالتی رپورٹر میڈیا کے ذریعے تفصیلات فراہم کرتے ہیں۔ عدالتی کارروائی کی لائیو کوریج پر عدالتی رپورٹرز نے بھی اپنے انداز میں تبصرہ کیا۔
عدالتی رپورٹر ثاقب بشیر نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ چار چار گھنٹے کی سماعتوں کو سن کر چار منٹ میں کورٹ رپورٹرز عوام کے سامنے کیسے رکھتے ہیں یہ تو عوام کو سمجھ آ رہی ہو گی۔
انہوں نے اپنی ایک اور پوسٹ میں لکھا کہ فل کورٹ براہ راست عدالتی کارروائی کا ایک دلچسپ اینگل یہ بھی ہے جتنی کلئیر آواز ٹی وی پر ججز کی سنی جا رہی ہے اتنی کلئیر آواز تو کورٹ روم نمبر ایک میں بھی نہیں آتی۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ایک تو کورٹ کے اندر آواز گونجتی ہے دوسرا کورٹ رپورٹرز کو آواز واضح طور پر سننے کے لیے وہاں لگے اسپیکرز کے بالکل قریب رہنا پڑتا ہے۔
عدالتی رپورٹنگ سے وابستہ رہنے والی ایک اور صحافی عفت حسن رضوی نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ "پہلے صرف کورٹ رپورٹر جھیلتے تھے، اب پوری قوم جھیلے۔"
انہوں نے لکھا کہ دیکھیں کہ کیسے ججز کے دھڑے بندی بینچ سے نظر آتی ہے، دیکھیں کہ کیسے وکلا کیس ٹالنا چاہیں، ٹائم پاس کرنا چاہیں تو کوئی انہیں روک نہیں سکتا اور دیکھیں کہ کبھی کیس آپ ہی آپ ججز کے درمیان لڑا جاتا ہے اور وکیل پنگ پانگ کی بال ہوتا ہے۔