صومالیہ کی حکومت نے ملک میں کرسمس اور نئے سال کی تقریبات پر یہ کہہ کر پابندی عائد کردی ہے کہ اس نوعیت کے تہواروں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
صومالیہ کی وزارتِ مذہبی امور کے ڈائریکٹر شیخ محمد خیرو نے سرکاری ریڈیو پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرسمس مسیحیوں کا تہوار ہے جس کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ عقیدے کا معاملہ ہے اور اسی لیے ان کی حکومت نے ملک میں کرسمس اور سالِ نو کی تقریبات پر پابندی عائد کردی ہے۔
شیخ محمد نے کہا کہ ان کی وزارت نے دارالحکومت موغادیشو کی پولیس، نیشنل سکیورٹی انٹیلی جنس اور دیگر حکام کو خطوط لکھ دیے ہیں جن میں انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان تقریبات کا انعقاد روکیں۔
صومالیہ کی 99 فی صد آبادی مسلمان ہے لیکن وہاں افریقہ کے عیسائی ممالک برونڈی، یوگینڈا اور کینیا کے ہزاروں فوجی اہلکار بھی تعینات ہیں جو صومالیہ میں افریقی یونین کے امن مشن کا حصہ ہیں۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ صومالی حکومت کے اس فیصلے کے محرکات کیا ہیں اور آیا اس کا اطلاق غیر ملکی فوجی دستوں پر بھی ہوگا۔
گزشتہ دو دہائیوں سے خانہ جنگی اور مذہبی انتہا پسندی کا شکار صومالیہ میں حالیہ برسوں کے دوران امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوئی ہے جس کے بعد یورپ اور شمالی امریکہ میں مقیم صومالی تارکینِ وطن کی بڑی تعداد دوبارہ اپنے ملک لوٹ رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مغربی ملکوں سے واپس آنے والے تارکینِ وطن کی بڑی تعداد غیر ملکی طور طریقوں اور ثقافت کی عادی ہوتی ہے جسے ممکن ہے کہ صومالی حکومت ملک کی مسلم اقدار کے لیے خطرہ سمجھتی ہو۔
صومالیہ میں سرگرم شدت پسند تنظیم 'الشباب' نے – جو 2011ء تک موغادیشو پر قابض تھی - اپنے عروج کے دور میں بھی ملک میں کرسمس کی تقریبات پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔
دریں اثنا صومالی حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ملک میں کرسمس کی تقریبات الشباب کے حملوں کا نشانہ بن سکتی ہیں۔
موغادیشو کے میئر کے ترجمان عبدالفتاح حالان نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں کرسمس کی تقریبات پر پابندی عائد کرنے کی دو وجوہات ہیں۔
ان کے بقول ایک تو صومالیہ کی تمام آبادی مسلمان ہے اور وہاں مسیحیوں کا وجود نہیں اور کرسمس سراسر مسیحیت کا تہوار ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
ترجمان نے بتایا کہ کرسمس پر پابندی کی دوسری وجہ سلامتی کی صورتِ حال ہے کیوں کہ حکام کو خدشہ ہے کہ الشباب کے جنگجو کرسمس کی تقریبات کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
گزشتہ سال 25 دسمبر کو بھی جنگجووں نے موغادیشو میں افریقی یونین کی مرکزی چھاؤنی پر حملہ کردیا تھا۔ کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی اس کارروائی میں تین غیر ملکی فوجی اور ایک سول ملازم ہلاک ہوا تھا۔
حملے کی ذمہ داری الشباب نے قبول کی تھی۔