قرنِ افریقہ میں ہولناک خشک سالی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے مدد دینے والوں میں امریکہ کاشمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جنھوں نے سب سے زیادہ امداد دی ہے ۔ تا ہم، ناقدین کہہ رہے ہیں کہ امریکہ، صومالیہ کے مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اس قسم کی تنقید اکثر واشنگٹن کے ایک اجتماع میں کی گئی جسے Famine in the Horn: Assessing the U.S. Response کہا جاتا ہے ۔ اٹلانٹک کونسل کی براؤن وئن برٹن کہتی ہیں’’صومالیہ میں اب بھی سات لاکھ پچاس ہزار ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں فوری مدد کی ضرورت ہے ورنہ یہ سب ہلاک ہو جائیں گے ۔ ان میں بیشتر عورتیں اور بچے ہیں، ننھے ننھے بچے جن کا صومالیہ میں جاری جنگ و جدال سے کوئی تعلق نہیں ۔ میں جس چیز کی طرف توجہ دلانا چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ اگرچہ اس ملک میں ہمارے اہم مفادات ہیں جو انسانی ہمدردی کے مفادات نہیں ہیں، ان مفادات کے سلسلے میں ہماری کارکردگی اچھی نہیں رہی ہے، اور ہم نے ان مفادات کے درمیان اور صومالیہ کے لوگوں کی انسانی ضرورتوں کے مفادات کے درمیان توازن قائم رکھنے کا فریضہ بڑے خراب انداز سے انجام دیا ہے۔‘‘
برٹن نے توجہ دلائی کہ امریکہ نے صومالیہ کو 2011 کے مقابلے میں 2008 میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر زیادہ امداد دی تھی جب کہ اس وقت وہاں قحط نہیں پڑا تھا۔ فرق یہ ہے کہ اب صومالیہ کے بہت سے علاقے الشباب کے کنٹرول میں ہیں ۔
انھوں نے افریقہ میں امریکہ کی ملٹری کمانڈ، افریکوم پر زور دیا کہ جن علاقوں میں سیکورٹی کے چیلنج درپیش ہیں، وہاں غذائی امداد پہنچانے میں مدد دے اور اپنا کردار ادا کرے۔ سنٹر فار امریکن پراگریس کے جان نورس نے کہا کہ اگر امریکہ صومالیہ کے لوگوں کی مدد کے بارے میں واقعی سنجیدہ ہے، تو اسے سفارتی کوششوں کے بارے میں سنجیدہ ہونا چاہئیے اور کوئی طویل المدت حل تلاش کرنا چاہیئے۔ انھوں نے کہا کہ 1990 کی دہائی کے شروع سے اب تک صومالیہ میں، جو مستقل طور سے غیر مستحکم ہے، انسانی ہمدردی کی کارروائیوں پر بہت سا پیسہ خرچ کیا جا چکا ہے لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔
’’ہم اس دائمی بحران سے کیسے نکلیں، اور آخر ایسا کیوں ہے کہ 20 سال پہلے جب شہ سرخیوں میں صومالیہ کی خبریں چھائی ہوئی تھیں ، اس وقت کے مقابلے میں، آج بھی وہاں کے حالات زیادہ نہیں تو اتنے ہی خراب ہیں۔ میرے خیال میں مسئلہ یہ ہے کہ ایک ملک کی حیثیت سے ہم صومالیہ پر لاکھوں کروڑوں ڈالر خرچ کرتے رہے ہیں، لیکن اگر آپ اعلیٰ سطح کی سفارتکاری پر نظر ڈالیں جو اس مسئلے پر مرکوز کی گئی ہے، تو پتہ چلے گا کہ ہماری کوشش انتہائی حقیر رہی ہے۔‘‘
امریکی حکومت کی ایک نمائندہ نینسی لنڈبورگ نے جن کا تعلق امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی امداد سے ہے، پر زور طریقے سے امریکہ کی امدادی کوششوں کا دفاع کیا۔ انھوں نے کہا کہ مسئلہ وسائل کی دستیابی کا نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ جو علاقے الشباب کے کنٹرول میں ہیں، ان تک رسائی کیسے حاصل کی جائے ۔ انھوں نے کہا کہ صومالیہ کے دوسرے علاقوں میں، نیز کینیا اور ایتھیوپیا میں قحط سے بچاؤ ممکن ہوا ہے کیوں کہ وہاں کے حکام تعاون کرتے ہیں اور وہاں ترقیاتی پراجیکٹس کامیاب ہوئے ہیں۔
امریکی عہدے دار نے مثبت پہلوؤں پر زور دیا اور کہا کہ اس بحران سے ثابت ہوا ہے کہ بہت سے دوسرے ممالک اور مختلف قسم کی تنظیمیں ان حالات میں مدد دے رہی ہیں۔
’’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد دینے والے ملکوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۔ ہمیں ایسی مدد کرنے کا موقع ملا ہے جس میں بہت سے ملک شریک ہو رہے ہیں اور تعاون کر رہے ہیں ۔ صومالیہ میں کئی اسلامی گروپوں اور ترکی نے بہت بڑے پیمانے پر مدد دی ہے ۔ اس طرح ہمیں ان کے ساتھ تعاون کرنے ، اور ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع ملا ہے۔‘‘
پینل کے ارکان نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پناہ گزینوں کے کیمپوں میں سویلین لوگوں ، اور خاص طور سے خشک سالی سے فرار ہو کر آنے والی عورتوں کے لیے سیکورٹی کے حالات تشویشناک ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ کینیا نے حال ہی میں صومالیہ کے اندر جو فوجی کارروائی کی ہے، اس سے الشباب کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں خشک سالی سے متاثر ہونے والے لوگوں کی حالت اور زیادہ خراب ہو سکتی ہے ۔
کینیا نے اس مہینے کے شروع میں اغوا کی بہت سی وارداتوں کے بعد ، جن کا الزام الشباب پر لگایا گیا ہے، صومالیہ کے اندر اپنی فوج بھیجی ہے ۔ اس انتہا پسند اسلامی گروپ نے صومالیہ کی حکومت کے خلاف ، جسے امریکہ اور اقوام متحدہ کی حمایت حاصل ہے، چار سال سے مہم چلا رکھی ہے ۔ صومالیہ کے بیشتر وسطی اور جنوبی حصے پر الشباب کا کنٹرول ہے ۔ اس میں وہ علاقے بھی شامل ہیں جنہیں اقوام متحدہ نے قرن افریقہ کے خشک سالی سے تباہ حال علاقے میں قحط زدہ قرار دے دیا ہے ۔