سات ہفتوں میں 3 کروڑ 30 لاکھ امریکی بے روزگار

امریکہ میں گزشتہ ہفتے 32 لاکھ افراد نے محکمہ محنت کو مطلع کیا کہ وہ روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور انھیں مدد کی ضرورت ہے۔ اس طرح سات ہفتوں میں بے روزگار ہوجانے والوں کی تعداد 33 ملین یعنی تین کروڑ 30 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔

بعض ریاستوں کے حکام نے کہا ہے کہ ان کے ایک چوتھائی سے زیادہ کام کرنے والوں کا ذریعہ آمدن ختم ہوا ہے۔

محکمہ محنت اپنی ماہانہ رپورٹ جمعہ کو جاری کرے گا۔ ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ اس میں اپریل کے مہینے میں بے روزگاری 15 فیصد یا زیادہ بیان کی جائے گی جو کساد بازاری کے زمانے کی شرح ہے۔

صدر ٹرمپ نے مارچ کے وسط میں ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد پہلے ہفتے میں 33 لاکھ، دوسرے میں 69 لاکھ، تیسرے میں 66 لاکھ، چوتھے میں 52 لاکھ، پانچویں میں 44 لاکھ اور چھٹے ہفتے میں 38 لاکھ شہری بے روزگار ہوئے تھے۔

معاشی تھنک ٹینکس کا خیال ہے کہ اس عرصے میں لگ بھگ ایک کروڑ مزید افراد کی آمدنی کے ذرائع ختم ہوئے ہیں۔ لیکن، وہ بیروزگاری الاؤنس کے اہل نہیں یا ان کے پاس قانونی دستاویزات نہیں۔

معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت تو صورتحال تشویش ناک ہے ہی، لیکن مستقبل بھی امید افزا نہیں اور صدر ٹرمپ کی یہ پیش گوئی درست ہونے کا امکان نہیں کہ کاروبار کھلنے کے بعد معیشت تیزی سے بحال ہوجائے گی۔

واشنگٹن پوسٹ کے ایک سروے سے معلوم ہوا کہ روزگار سے محروم ہونے والے 77 فیصد افراد کو یقین ہے کہ معیشت کھلنے کے بعد انھیں دوبارہ ملازمت مل جائے گی۔ لیکن ماہرین اس بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔

متعدد ریاستوں نے گھر پر رہنے کی پابندیاں اٹھانا شروع کر دی ہیں۔ لیکن ان ماہرین کے مطابق یہ کہنا دشوار ہے کہ کتنے لوگوں کو ان کا روزگار واپس مل سکے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ معیشت کا زوال اس قدر اچانک اور پھیلا ہوا ہے اور صارفین اتنے ڈرے ہوئے ہیں کہ بحران کے پہلے کی صورت میں جانے میں بہت دیر لگے گی۔

امریکہ میں جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار کئی عشروں کی بدترین گراوٹ کا شکار ہے اور اشیا کی فروخت میں بدترین کمی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ وسیع تر عالمی معاشی زوال کا حصہ ہے۔

یورپی کمیشن کے اندازوں کے مطابق، اس سال یورپ کی معیشت 7٫4 فیصد سکڑے گی۔ 2009 میں یہ شرح 4٫5 تھی جس کے بعد عالمی معاشی بحران کا آغاز ہوگیا تھا۔