بھارت میں کرونا وبا کی شدت کے باعث پیدا ہونے والے حالات کے نتیجے میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر تنقید کا سامنا رہا۔ اب جب کہ وبا کی شدت میں کمی آرہی ہے، لیکن نریندر مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے عوامی مقبولیت سے متعلق چیلنجز برقرار ہیں۔
حال ہی میں رائے عامہ کے دو ایسے جائزے سامنے آئے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ 2019 کے انتخابات میں تین دہائیوں کے دوران سب سے زیادہ اکثریت حاصل کرنے والے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی مقبولیت میں کمی آ رہی ہے۔
مئی میں امریکہ کی ڈیٹا انٹیلی جنس کمپنی 'مورننگ کنسلٹ' کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کرونا وبا میں شدت کے بعد اگست 2019 کے بعد سے مودی کی مقبولیت کم ترین سطح پر آگئی ہے۔ انہیں 63 فی صد رائے دہندگان کی پسندیدگی حاصل ہو سکی اور اپریل میں ان کی پسندیدگی میں 22 پوائنٹس کی کمی ہوئی۔
بھارت کی پولنگ ایجنسی 'سی ووٹر' کے سروے میں بتایا گیا ہے کہ نریندر مودی کی کارکردگی پر 'بہت زیادہ مطمئن' ہونے کا جواب دینے والوں کی شرح ایک سال کے دوران 65 فی صد سے 37 فی صد پر آگئی ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے بات کرتے ہوئے اس ادارے کے بانی یشونت دیش مکھ کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم کو ان دنوں اپنے کریئر میں سب سے بڑے سیاسی چیلنج کا سامنا ہے۔
پارٹی کے اندر مقبولیت؟
'رائٹرز' سے بات کرتے ہوئے اُتر پردیش کے علاقے بلائی میں بی جے پی کے کارکن گووند پاسی نے بتایا کہ جب ان پر مشکل وقت آیا تو کوئی ان کی مدد کے لیے نہیں آیا اور ان کا دل ٹوٹا ہوا ہے۔
پاسی کی بیوی کو کرونا وائرس ہو گیا تھا اور مناسب علاج نہ ملنے کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی۔ پاسی اپنے سیاسی روابط کے باوجود کوئی مدد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔
بی جے پی کے ضلعی صدر آنند اوستھی کا کہنا ہے کہ انہیں پاسی کی بیوی کی ہلاکت کا علم ہے۔ پارٹی انہیں مالی امداد دلوانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن حکومتی ریکارڈ سے یہ ثابت ہونا باقی ہے کہ پاسی کی بیوی کو کرونا وائرس تھا یا نہیں۔
SEE ALSO: مغربی بنگال میں شکست، کیا نریندر مودی کی حکومت مقبولیت کھو رہی ہے؟پاسی عوامی سطح پر کام کرنے والے بی جے پی کے ان درجن سے زائد کارکنان میں شامل ہیں جنہوں نے 'رائٹرز' کو بتایا کہ وہ کرونا وبا پر قابو پانے سے متعلق حکومتی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔
اس کے علاوہ اُتر پردیش اسمبلی کے چھ ارکان نے اپنے حلقوں میں مدد کی اپیلوں کی شنوائی نہ ہونے پر خط لکھے ہیں جن میں حکومت پر تنقید کی گئی ہے۔
بی جے پی کے قومی سطح کے ایک ممتاز عہدے دار نے 'رائٹرز' کو بتایا کہ وہ بنیادی طبی سہولیات کی عدم فراہمی، لاک ڈاؤن سے متعلق غیر واضح پیغامات، ادویات اور آکسیجن کی قلت جیسے مسائل کی وجہ سے لمبی چھٹی پر جا رہے ہیں۔
انہوں نے اپنے بیان پر ممکنہ ردّعمل کی وجہ سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر 'رائٹرز' سے یہ گفتگو کی۔
حکمراں جماعت بی جے پی ایک وسیع تنظیمی ڈھانچا رکھتی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ ملک میں اس کے 15 کروڑ فعال کارکن ہیں۔
'رائٹرز' کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی جماعت میں اس بات کا درست اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ پارٹی کارکنان میں عدم اطمینان کس حد تک پایا جاتا ہے۔ البتہ، اپنے سات سالہ دورِ اقتدار میں نریندر مودی کی پارٹی پر گرفت بہت مضبوط ہوچکی ہے اور ان کے خلاف بات کرنا آسان نہیں۔
'رائٹرز' نے اس معاملے پر بی جے پی کے ہیڈ کوارٹر اور وزیرِ اعظم کے دفتر سے ردعمل دینے کے لیے درخواست کی لیکن کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
بی جے پی کے نو جنرل سیکریٹریز میں سے ایک کیلاش وجے ورگیا کا کہنا تھا کہ "حالات سب کے لیے مشکل تھے اور ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے کارکنوں نے بھی اپنے پیاروں کو کھویا ہے۔ کئی جگہوں پر ہم نے ایک دوسرے کی مدد کی اور ایسا وقت بھی آیا کہ مدد نہیں کرسکے کیوں کہ صورتِ حال بہت مشکل تھی۔"
مبصرین کا کہنا ہے کہ وبا سے نمٹنے کی حکومتی کارکردگی پر عوامی غضب اور پارٹی کے اندر بڑھتا ہوا عدم اطمینان بی جے پی کے لیے اگلا سیاسی امتحان ثابت ہوسکتا ہے۔
اس سلسلے میں آئندہ برس بھارت کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست اُترپردیش کے ریاستی انتخابات کو اہم قرار دیا جا رہا ہے جہاں اس وقت بی جے پی کی حکومت ہے۔
یو پی کا الیکشن اہم ہوگا
ماضی میں بی جے پی کو عوامی سطح پر رائے دہندگان کو متحرک کرنے والے پاسی جیسے عام کارکنان کی وجہ سے کامیابی حاصل ہوتی رہی ہے۔ ایسے کارکنان اپنے علاقوں میں رہنے والے رائے دہندگان کو ذاتی طور پر جانتے ہیں اور انہیں ووٹ دینے پر قائل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سیاسیات کے سابق پروفیسر اور زیادہ تر بی جے پی پر لکھنے والے تجزیہ کار سہاس پلشکر کا کہنا ہے کہ اگر ووٹرز کو بھرپور انداز میں متحرک نہیں کیا گیا تو ایسے حلقوں میں بی جے پی کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جہاں شکست یا فتح کا فرق بہت کم رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اتر پردیش کے انتخابات میں ابھی چھ ماہ باقی ہیں جو 'سیاست میں بہت لمبا عرصہ' ہوتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ بھارت میں آئندہ عام انتخابات 2024 میں ہوں گے لیکن اگلے سال اتر پردیش کے انتخابات میں اگر بی جے پی اچھے نتائج نہیں لاسکی تو یہ پارٹی کے لیے بڑا دھچکا ہوگا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں اتحاد کی کمی کسی بھی انتخاب میں نریندر مودی کے حق میں جائے گی۔ بھارت کی بعض چھوٹی سیاسی جماعتیں نریندر مودی کو شکست دینے کے لیے متحد ہونے کی بات کرتی ہیں لیکن حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس پارٹی اس معاملے پر خاموش ہے۔
حکومت نے کوششیں شروع کردیں
حکومت نے عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ گزشتہ ماہ کرونا کی شدت میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ہی وزیرِ اعظم مودی نے ٹیلی وژن پر آکر وبا سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمتِ عملی پر بات بھی کی ہے۔ وزیر اعظم کے معاونین نے بھی ویکسی نیشن کے اعداد و شمار کی تشہیر شروع کردی ہے۔
SEE ALSO: نریندر مودی اور ممتا بینر جی کا ٹکراؤ، کیا بھارت میں نیا سیاسی اتحاد بن سکتا ہے؟لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ان کوششوں سے کرونا وائرس سے پیدا ہونے والے بحران پر عوام کی برہمی میں کمی آئے گی یا نہیں۔
’حامی بھی سوال اٹھا رہے ہیں‘
بھارت میں ہندی کے بڑے اخبار 'دینک بھاسکر' کے مدیر اوم گوڑ کا کہنا ہے کہ بھارت کی 28 میں سے 12 ریاستوں سے آنے والی فیلڈ رپورٹس کے مطابق کرونا وائرس میں حکومت کی کارکردگی نے بی جے پی کی مقبولیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ سات برسوں میں وزیرِ اعظم مودی کو اتنے کڑے وقت کا سامنا نہیں رہا۔ پالیسی کی ناکامی کی وجہ سے مودی کے انتہائی وفادار اور مذہبی و قوم پرستی کی بنیادوں پر ان کی حمایت کرنے والے بھی بحران میں ان کی اہلیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
بی جے پی کے ایک اور جنرل سیکریٹری مرلی دھر راؤ کا کہنا ہے کہ مودی کے خلاف پارٹی یا رائے دہندگان میں پائے جانے والی برہمی ان کے علم میں ںہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ آئندہ انتخابات میں کیا ہوگا اس پر ابھی بات نہیں ہوسکتی اور نہ ہی ہونی چاہیے۔ ہمیں اپنی توجہ اہل افراد کی ویکسی نیشن پر مرکوز کرنا ہو گی اور یہ ہمارا مرکزی ایجنڈا ہے۔
اس تحریر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔