پاکستان سمیت پورے دنیا میں ’شیزوفرینیا‘ کے مریضوں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہیں۔ پاکستان کے صوبے سندھ کے زیادہ تر علاقوں میں اس بیماری میں مبتلا افراد کی تعداد دوسرے صوبوں کی نسبت زیادہ ہے۔
یہاں کے ہسپتالوں میں ذہنی امراض میں مبتلا افراد معقول علاج اور دیگر سہولیات سے محروم ہیں۔ ان کی دیکھ بھال کے بجائے ان کو زنجیروں سے باندھ کے رکھا جاتا ہے۔ ’سول‘ اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے جو ’شیزوفرنیا‘ کے مریضوں کے لئے رضاکارانہ طبیب کے طور پر خدمات سر انجام دے رہا ہے۔ اس ادارے کا مقصد شیزوفرینا میں مبتلا مفلس اور نادار افراد کا مفت علاج کرنا ہے۔
شیزوفرنیا ذہنی امراض کی ایک قسم ہے جس میں مبتلا افراد کو لایعنی آوازیں سنائی دیتی ہیں اسے محسوس ہوتا ہے کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ وہ اپنے آپ کو دنیا سے الگ تھلگ ایک تصوراتی دنیا میں محسو س کرتا ہے۔ اس میں مبتلا مریض کے بولنے کا انداز غیر معمولی ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ بیماری انسانی ذہن کو معذور کر دیتی ہے۔
ایک سائنسی رپورٹ کے مطابق، ان کی وجوہات مختلف ہوتی ہیں جیسا کہ دماغ میں کیمیائی تبدیلی، موت، جنسی زیادتی یا کسی صدمے میں مبتلا افراد کے شکار بھی اس بیماری میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کی ذہنی یا دماغی ڈپریشن بھی اس کی وجہ بنتی ہے۔ بعض ڈاکٹروں کے مطابق یہ جنیاتی بھی ہوسکتی ہے۔
سن 2010 ء میں برطانیہ میں موجود سندھ ڈاکٹرز ایسوسیشن اور بے نظیر یونیورسٹی سندھ کے شعبہ نفسیات سے منسلک کارکنوں نے مل کر ’سول‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ 2011 میں اس ادارے نے باقائدہ کام شروع کیا۔ اس ادارے سے منسلک برطانیہ میں مقیم ڈاکٹر صافی افغان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری تنطیم سندھ ڈاکٹرز ایسوسییشن سندھ کے اندر، صحت، تعلیم کے مختلف پروجیکٹ میں کام کرتی رہی ہے‘‘۔
ہم نے سوچا کہ چونکہ پاکستان کے زیادہ تر پسماندہ علاقوں میں ذہنی مریضوں کے لئے علاج اور سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں تو کیوں نہ اس قسم کا ادارہ قائم کیا جائے جو ان مریضوں کو ان کے علاقوں میں مفت علاج اور ادویات فراہم کرے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’اس لئے ہم نے سب سے پہلے شہر لاڑکانہ میں اپنا ادارہ قائم کیال؛ کیوں کہ وہاں پر شعبہ نفسیات پہلے سے موجود تھا۔ اس ادرے کے لئے ہم نے چھوٹے پیمانے پر فند جمع کیے اور تقریبا 5 لاکھ روپے جمع کر کے لاڑکانہ میں اس ادارے کی بنیاد رکھی۔‘‘
دوسری طرف، ’سول‘ کے ساتھ رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے ماہر نفسیات ڈاکٹر بدر الدین نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ گھریلے قسم کا علاج ہے۔ ہم چاہتے تھے کہ لوگوں کے گھروں میں جاکر اس قسم کے مریضوں کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کریں۔ ابھی تک ہم نے 200 سے زیادہ مریضوں کا علاج کیا۔ اس وقت ہمارے پاس موجود رجسٹرڈ افراد کی تعداد 150 ہے، جبکہ لاڑکانہ کی آبادی تقریباً 8لاکھ کے قریب ہے، مگر ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ہم زیادہ لوگوں کا علاج کر سکیں۔
شیزوفرنیا کے مرض میں مبتلا نذیر منگی کے والد کا کہنا تھا کہ ’’آج سے 3 برس پہلے ہمیں کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ میرے بیٹے کو کیا مرض لاحق ہے۔ وہ بلا وجہ غصہ کا اظہار کرتا تھا۔ لوگوں سے الگ تلگ رہتا تھا۔ پھر سول پروگرام کے تحت اس کا علاج شروع ہوا اور اب ان کی حالت پہلے سے بہتر ہے‘‘۔
عالمی دارہٴ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس وقت دنیا میں 2 کروڑ دس لاکھ افراد سے زیادہ افراد شیزوفرنیا کے مرض میں مبتلا ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں ایسے مریضوں کو طبی علاج معالجے کے ساتھ ساتھ مناسب دیکھ بھال کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف اس مرض کے بارے لوگوں میں آگہی پیدا کی جائے بلکہ ایسے مریضوں کے علاج معالجے کی سہولتیں بھی میّسر ہوں۔ سول جیسے اداروں کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینا ہوگی۔