لی سو جیانگ جنوبی کوریا کی پہلی خاتون نیوز اینکر بن گئی ہیں۔ درمیانی عمر کی ہونے کے باوجود وہ چینل کا پرکشش چہرہ بنی ہوئی ہیں۔
دنیا بھر کے ٹیلی ویژن چینلز نئے نئے تجربات اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے نیوز بلیٹن پیش کرتے ہیں لیکن جنوبی کوریا میں اب تک قدیم اور روایتی انداز میں خبرنامے پیش کیے جاتے ہیں۔
فرانس کے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق جنوبی کوریا کا ایک سرکاری ٹی وی چینل کورین براڈ کاسٹنگ سسٹم (کے بی ایس) بھی روایتی انداز سے چلنے والا چینل ہے جس پر سنجیدہ نظر آنے والا عمر رسیدہ اینکر دن کی خبروں کی شہ سرخیاں اور ان کی تفصیلات مشینی انداز میں پڑھتا چلا جاتا ہے۔
جنوبی کوریا کے چینلز میں عام طور پر خواتین نیوز ریڈرز کو سنجیدہ خبروں کے بجائے روز مرہ کی عام خبریں پڑھنے کا موقع ملتا تھا۔ تاہم لی جیانگ پرائم ٹائم میں براہِ راست پروگرام پیش کرنے والی جنوبی کوریا کی پہلی نیوز اینکر ہیں۔
جنوبی کوریا میں ایک طویل عرصے سے اسی انداز میں نیوز بلیٹن پیش کیے جاتے ہیں جو دیکھنے والوں کے لیے انتہائی غیر دلچسپ اور پھیکے ثابت ہو رہے ہیں۔
تاہم اب 'کے بی ایس' نے یہ انداز بدل لیا ہے اور اس مقصد کے لیے 43 سالہ لی سو جیانگ کی خدمات حاصل کی ہیں۔
لی جیانگ 'الٹرا ماڈرن اسٹوڈیوز' میں جدید ٹیکنالوجی اور آلات کی مدد سے نئی تیکنیکس کے ساتھ براہِ راست ٹیلی پرومٹر دیکھ کر خبریں پیش کرتی ہیں۔
لی جیانگ نے ٹی وی چینل سے وابستگی کے ساتھ ہی جنوبی کوریا کی پہلی خاتون نیوز اینکر ہونے کا اعزاز بھی حاصل کر لیا ہے۔ وہ ہفتہ میں پانچ بار 'نیوز 9' کے نام سے نیوز بلیٹن پیش کرتی ہیں۔
لی جیانگ نے 2003 میں اپنے کیرِیئر کا آغاز کیا تھا اور ان کا ایک چھ سال کا بیٹا بھی ہے۔
اے ایف پی کے مطابق 'لی جیانگ کا یہ کام اس حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ ملکی معاشرہ تکنیکی اور معاشی طور پر تو خاصا ترقی یافتہ ہے لیکن ثقافتی طور پر وہاں مردوں کی اجارہ داری ہے۔'
کورین براڈ کاسٹنگ سسٹم سرکاری ٹی وی چینل ہے جس پر لی سو جیانگ کی تقرری پر خاصے اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔ تاہم تمام اعتراضات کے باوجود وہ خبریں پیش کرنے کا موقع حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔
چیانگ کی چینل میں بطور نیوز اینکر آمد سے قبل چینل میں کام کرنے والی خواتین کا کوئی خاص کردار نہیں تھا۔
لی سو جیانگ نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ 'خواتین نیوز ریڈرز کو صرف خوبصورت پھولوں کی طرح استعمال کیا جاتا تھا۔ اُن کا انداز کچھ اس طرح کا تھا کہ جیسے نیوز بلیٹن کے ذریعے دیکھنے والوں کو لیکچر دیا جا رہا ہو۔
لی نے مزید بتایا کہ وہ نئے عزائم کے ساتھ 'کے بی ایس' سے وابستہ ہوئی ہیں۔ اُن کا چینل قدامت پسندانہ انداز کو بدلنے کا عزم لے کر ایک نئے انداز میں سامنے آ رہا ہے۔
لی سو جیانگ کے 'نیوز بلیٹن' کے بعد پچھلے نومبر سے اب تک ملک میں خبریں اور حالات حاضرہ سے جڑے پروگراموں کے سامعین کی شرح نو اعشاریہ چھ فی صد سے بڑھ کر 11 فی صد ہو گئی ہے۔
تاہم لی سو اپنے اوپر ایک طرح کا دباؤ بھی محسوس کرتی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ کسی غلطی کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔
لی کہتی ہیں "اگر میں اس میں ناکام رہتی ہوں تو اس سے مجموعی طور پر دیگر خواتین میزبانوں کی بدنامی ہو سکتی ہے۔ مجھے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ خواتین کو زیادہ مواقع میسر آ سکیں۔"
لی جیانگ کے مطابق پرائم ٹائم میں براہِ راست خبریں پڑھنا بہت زیادہ ذمے داری کا کام ہے جو دوسرے معنی میں ایک طرح کا بوجھ ہے۔
اے ایف کی رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریا کی ترقی نے اسے دنیا کی 12ویں بڑی معیشت اور صنعتی و تجارتی حب بنا دیا ہے۔ لیکن روایتی معاشرتی اقدار اب بھی وہاں کافی حد تک مضبوط ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مردوں کے مقابلے میں خواتین کی کم تنخواہیں اور زچگی کے موقع پر تنخواہ کی کٹوتی اور چھٹیوں سے واپسی پر مشکلات کے سامنے جیسے مسائل اب بھی ملکی سطح پر موجود ہیں۔