جنوبی افریقہ کی سیاہ فام کمیونٹی میں خواتین کو جس بدترین امتیازی سلوک اور عدم مساوات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سوویٹو اس کی ایک واضح مثال ہے۔ سوویٹو تاریخی اعتبار سے ایک سیاہ فام علاقہ ہے۔
ایک غیر منافع بخش تنظیم "فینومینل وومن" صنفی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بننے والوں کی مدد کرتا ہے۔ یہ تنظیم تقریباً ایک سال پہلے سوویٹو میں اپنا ایک دفتر قائم کرنے کے انتظامات کر رہی تھی لیکن لوٹ مار کرنے والوں نے ان کی یہ کوشش ناکام بنا دی۔
اس تنظیم کی چیئرپرسن کرزیلڈا جوسٹے سوارٹز کا کہنا ہے کہ " یہ واقعہ بے روزگاری، منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال اور جرائم کا ایک اور ضمنی نتیجہ تھا"۔
ان کا کہنا تھا کہ "یہاں لوگ روزانہ کی بنیاد پرصرف گزراوقات کے لیے، صرف کھانے کی ایک پلیٹ کے لیے جدو جہد کرتے ہیں۔ لیکن یہاں بے روزگاری ہے، روزگار کے مواقع میسر نہیں ہیں۔"
سوارٹز کا مزید کہنا تھا کہ "یہ وہ جگہ ہے جہاں صنف کی بنیاد پر تشدد کا بہت نمایاں کردار ہے۔ آپ کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اگر عورت بے روزگار ہے اور اس کا شوہر کام پرجاتا ہے تو وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ پیسہ کمانے والا وہی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو عورت کو بہت کمزور پوزیشن میں لا کھڑا کرتی ہے۔"
فینومینل وومن نامی یہ تنظیم اپنی توجہ صنفی بنیاد پر ہونے والے تشدد پر مرکوز کیے ہوئے ہے۔ وہ خواتین کو تشدد سے بچانے کے لیے انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس کے لیے اس کی نظریں زرعی شعبے پر ہیں۔ اس تنظیم کا خیال ہے کہ زرعی پروگراموں کے ذریعے روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں۔
ماخوسینی نڈلوو کی عمر 26 سال ہے ۔ وہ اس گروپ کے کمیوٹنی گارڈن پراجیکٹ کی سربراہ ہیں۔
نڈلوو کا کہنا ہے کہ "یہاں کسی کو ملازمت نہیں ملتی۔ ہم درخواستیں دیتے رہتے ہیں ، لیکن نوکری نہیں ملتی۔اس لیے ہم نے سوچا کہ چلو زراعت کے شعبے میں قسمت آزمائی کرتے ہیں ۔ میری عمر کے کسی بھی فرد کے لیے بدترین صورت حال یہ ہو گی کہ وہ لوٹ مار یا جرائم کی جانب اس وجہ سے راغب ہو رہا ہے کیونکہ اس کے پاس بس یہی راستہ ہے۔ میں یہ کہوں گی کہ اس طرح کی جگہ پر یہ سب سے آسان راستہ ہے"۔
اس مسئلے کی جڑیں ماضی میں نسلوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس ملک میں نسلی بنیادوں پر تفریق کی تاریخ سیاہ فام افریقیوں کو معاشی طور پر پس ماندگی کی جانب دھکیل رہی ہے۔
پیریلا پاسی ورلڈ بینک میں ایکوٹی منیجر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نسلی تفریق کے اثر کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کے بچوں کو اپنی پیدائش کے دن سے ہی ناموافق صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ کبھی بھی اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئےکار لانے کی منزل تک نہیں پہنچ پاتے۔ اسی وجہ سے یہ ملک اپنی پوری افرادی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا نہیں پا رہا"۔
وہ کہتی ہیں کہ " بہتر تعلیم اور زمین کی زیادہ منصفانہ تقسیم ہی اس مسئلے کا حل ہے"۔
ملک میں پہلے ہی قانون سازی کے ذریعے تاریخی اعتبار سے محروم طبقوں کو ملازمتوں میں ترجیج دینے کی ضمانت دی گئی ہے۔ لیکن کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کے غلط استعمال سے اقربہ پروری اور بدعنوانی کو فروغ مل رہا ہے اور دولت چند ہاتھوں میں مرکوز ہو رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایک اور ادارے "ریس ریلیشنز انسٹی ٹیوٹ" سے منسلک ایک تجزیہ کار گیبرئل کروسے کہتے ہیں کہ ہم نے ایسے واقعات دیکھے ہیں کہ سیاہ فام خواتین کوٹہ سسٹم کی وجہ سے ترقی حاصل کرنے سے محروم رہ جاتی ہیں۔ اس کوٹہ سسٹم میں کہا گیا ہے کہ آپ کو تین سیاہ فام خواتین اور تین سیاہ فام مرد، اور ایک سفید فام عورت اور ایک سفید فام مرد کے تناسب سے ملازم رکھنے کی اجازت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہر محکمے میں اس تنوع کو قائم رکھنے کی کوشش کے سیاہ فام خواتین پر نمایاں منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ اس اقدام کے غیر دانش مندانہ ہونے کا واضح ثبوت ہے اور ہمیں اہلیت کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ حکومت کے محصولات اور دولت کی تقسیم کے پروگراموں سے انتہائی غریب طبقوں کی زندگیوں میں بہتری آئی ہے۔ لیکن امیر اور غریب کے درمیان حائل خلیج مزید بڑھ رہی ہے اور سوارٹز جیسے والدین کا کہنا ہے کہ وہ یہ سوچتے ہیں کہ اگر وہ بیرون ملک اتنی ہی محنت کرتے تو انہیں اس کا زیادہ فائدہ حاصل ہوتا۔