انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے، جنوب ایشیا کے ممالک مفت ہیلپ لائن اور آن لائن پلیٹ فارم قائم کریں گے۔ یہ سماجی برائی دنیا کے غریب ترین ملکوں اور سب سے گنجان آباد علاقوں میں بڑے پیمانے پر پھیلتی جا رہی ہے۔
ایسے میں جب چند سرگرم کارکنوں کو توقع ہے کہ نئے اقدام کے ذریعے ایک سے دوسرے ملک میں داخل ہونے کے امکان کو روکا جاسکے گا، جب کہ دیگر کا خیال ہے کہ اس سے شاذ ہی مسئلے کے حل پر کوئی مدد ملے گی۔
حالانکہ خطے میں خواتین اور بچوں کی اسمگلنگ کی اصل تعداد کا علم نہیں ہے، منشیات اور جرائم سے متعلق اقوام متحدہ کے دفتر کا کہنا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے ضمن میں جنوبی ایشیا دوسرا بڑا اور تیزی سے پھیلتا ہوا علاقہ ہے۔
انسانی اسمگلنگ کی زیادہ تر کم سن بچیاں اور خواتین شکار ہوتی ہیں۔
اِس ہفتے، بھارت کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے علاقائی حل کا نظام وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اُنھوں نے یہ بات بچوں کے تحفظ کے سلسلے میں منعقدہ جنوب ایشیائی ملکوں کے اجلاس میں شرکت کے بعد بتائی۔
اجلاس کے بعد، بھارت، پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، سری لنکا، مالدیپ اور نیپال نے اس عزم کا اظہار کیا کہ لاپتا بچوں کی تلاش کے لیے مل کر تگ و دو کی جائے گی۔ یہ ممالک مفت ہیلپ لائن کی یکساں سہولت کا نظام قائم کریں گے اور جنسی زیادتی، استحصال اور انسانی اسمگلنگ کے معاملے پر یکسان معیار وضع کریں گے۔
کولن گونزلیز نئی دہلی میں ’ہیومن رائٹس لا نیٹ ورک‘ کے سربراہ ہیں، جو ایک سرگرم گروپ ہے۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ اِن میں سے کئی ملکوں میں انسانی اسمگلنگ میں اضافے کے باعث بھونچال کی سی صورت حال ہے۔ بقول اُن کے، ’’نیپال میں زلزلہ آیا، جب کہ بنگلہ دیش میں سیاسی کشیدگی جاری ہے۔ اس لیے یہ وہ خطہ بن گیا ہے جہاں خاندانن نظام بگڑتا جا رہا ہے یا لوگ نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ غربت بڑھ چکی ہے، اس لیے، اس علاقے میں انسانی اسمگلنگ کی تعداد بے انتہا بڑھ چکی ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اب تک اس کا کوئی تدارک دستیاب نہیں‘‘۔
بھارت میں بھی داخلی طور پر انسانی اسمگلنگ کی شرح بڑھی ہوئی ہے، حالانکہ وہاں پر معاشی افزائش کے میدان میں سات فی صد اضافہ ہوا ہے۔ تاہم، آمدن کی عدم مساوات کا مطلب یہ ہے کہ ابھی تک لاکھوں افراد انتہائی غربت کے شکار ہیں۔ اُسی وقت، ملک کے ترقی کرنے والے شہروں میں طلب میں اضافہ آ چکا ہے، کئی بچے اور خواتین جسم فروشی کے دھندے میں ملوث ہوچکے ہیں، یا پھر کم اجرت پر مزدوری یا گھروں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔
انسانی اسمگلنگ کے شکار کئی افراد کو نیپال اور بنگلہ دیش سے بھارت لایا جاتا ہے۔
ادھر، انسانی اسمگلنگ کے خلاف آواز اٹھانے والے ایک معروف بھارتی سرگرم کارکن، رشی کانت پُرامید ہیں کہ جنوب ایشیائی ملکوں کا یہ قدم اس معاملے کے انسداد میں کارآمد ثابت ہوگا۔
تاہم، دیگر سرگرم کارکن، جن میں گولنزالیز بھی شامل ہیں، حکومتوں اور قانون کے نفاذ سے وابستہ اداروں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں، جو بقول اُن کے، ’’زبانی کلامی تو بہت کچھ کہتے ہیں۔ لیکن، عملاً اِس سنگین جرم کے خاتمے کے لیے کچھ نہیں کرتے‘‘۔
وہ کہتے ہیں کہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد آزادی سے اور بغیر پوچھ گچھ اپنا گھناؤنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔