پچھلے چند برسوں سے جنوبی کوریا کے دفاترمیں پینٹنگ اور آرٹ کے فن پاروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے اور کئی عمارتوں کو دیکھ کر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہاں آرٹ کی نمائش کی جارہی ہے۔ اگرچہ آرٹ کے نمونے وہاں آنے والوں پر اچھا ثاثر چھوڑتے ہیں مگرکئی لوگ اس کے خلاف ہیں۔
یہ نمونے یقینی طور پر آرٹ کی خاطرنہیں بلکہ قانون کی وجہ سے ہیں۔ جنوبی کوریا میں قانون ہے کہ کسی بھی بڑی عمارت کی تعمیر کے اخراجات میں ایک فی صد آرٹ کے لئے مختص کیا جائے۔ مگر آرٹ کا تعین کرنے کا معاملہ مقامی حکومت کے اداروں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایک آرٹ میگزین کے چیف ایڈیٹر ہونگ کیونگ کہتے ہیں کہ 15سال پرانے قانون کے نتائج انتہائی مایوس کن ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ90 فی صد آرٹ کے نمونے بہت ہی برےہیں ۔ ان کا نہ تو تعمیراتی ڈیزائن اور نہ آرٹ سے کوئی تعلق نظر آتا ہے۔ ان میں کوئی جمالیاتی حس نہیں ہے۔ دارالحکومت سیول میں آرٹ کے ہزاروں نمونے لگائے گئے ہیں مگر زیادہ تر کے بارے منفی تاثر پایا جاتا ہے۔
بہت سے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ زیادہ تر وسیع وعریض عمارتوں کے باہر انسان نما اشکال اوردھاتوں سے بنے ڈھانچوں کو آرٹ کہنے سے ہچکچاتے ہیں۔ پاس سے گزرنے والے لوگ ہر جگہ موجود آرٹ کے ان نمونوں پر ذرا بھی توجہ نہیں دیتے ۔ اور کچھ کو تو آپ بالکل نظرانداز نہیں کر سکتے۔ ایک سٹیل کمپنی نے مشہور آرٹسٹ فرینک سٹیلاکو آرٹ کا یہ شاہکار تخلیق کرنے کے لیے پندرہ لاکھ ڈالر ادا کئے ۔ مگر کچھ لوگ اسے ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ اس میں بہت جلد زنگ لگ گیا ہے۔
سیول کے میئر کہتے ہیں کہ شروع میں اس قانون کی وجہ سے شہروں کو خوبصورت بنانے میں مدد ملی مگر اب اس سے مقاصد پورے نہیں ہو رہے۔
چونکہ یہ لوگوں کی مجبوری ہے اس لئے آرٹ کے نام پر ایسی چیزیں نصب کر دی جاتی ہیں جن کا نہ تو جمالیاتی حس سے کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی آنکھوں کو بھاتی ہیں۔ اسی لئے ہمارے ارد گرد آرٹ کے ایسے نمونے ہیں جو لوگوں کے لئے قابل قبول نہیں۔
قانون کی وجہ سے سیول میں سڑکوں اور گلیوں میں عمارتوں کے باہر چھ ہزار مجسمے ، 12 سو پینٹنگز اور آرٹ کےسینکڑوں دوسرے نمونے لگائے گئےہیں۔
کیونگ کہتے ہیں کہ آرٹ کا کوئی نمونہ اگر مناسب جگہ پر ہو تو اس سے شہریوں کو آرام اور سکون کا احساس ہوتا ہے۔ ان دنوں میں چاہتا ہوں کہ آرٹ کے ایسے نمونے تخلیق کئے جائیں جو لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر سکیں ۔ میری خواہش ہے کہ ایسا آرٹ نصب کیا جائے جس سے شہریوں کو ذہنی سکون ملے۔
اور ان لوگوں کے لئے جو اس قسم کے زیادہ تر آرٹ سے تسکین حاصل نہیں کر پاتے ان کے لئے حکومت کچھ اور کرنا چاہتی ہے۔ وہ قانون میں اصلاحات لانا چاہتی ہے جس کے تحت اگر کوئی مالک عمارت کے باہر آرٹ کا نمونہ نہیں لگانا چاہتا تو وہ آرٹ کی ترویج کے لئے بنا ئے جانے والے فنڈ میں حصہ ڈال سکیں گے۔