جنوبی کوریا کی برطرف صدر پارک گُن ہے نے کہا ہے کہ وہ پورے ملک سے معذرت خواہ ہیں۔
منگل کو دارالحکومت سیول میں استغاثہ کے دفتر پہنچنے پر میڈیا سے مختصر بات چیت میں ان کا کہا تھا کہ "میں لوگوں سے معذرت کرتی ہوں۔ میں نیک نیتی سے سوالات کا جواب دوں گی۔"
بدعنوانی کے ایک بڑے اسکینڈل سے پارک کا نام جڑنے کے بعد انھیں دس مارچ کو اپنے منصب سے ہاتھ دھونا پڑے تھے جس کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ انھوں نے براہ راست کھلے عام کوئی بات کی ہے۔
65 سالہ پارک جنوبی کوریا کی پہلی ایسی جمہوری منتخب صدر تھیں جنہیں پارلیمان کے مواخذے اور پھر عدالت عظمیٰ کی طرف سے ان کے خلاف فیصلے کے بعد عہدہ چھوڑنا پڑا۔
ان کا پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی ایک دوست چہ سون سل کے ساتھ مل کر بڑے کاروباری شعبوں پر دباو ڈالا کہ وہ ان دو فاونڈیشنز کو عطیات دیں جو پارک کی پالیسی کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہیں۔
سابق صدر اس معاملے میں کسی بھی طرح سے ملوث ہونے سے انکار کرتی آئی ہیں۔
لیکن عہدے سے ہٹنے کے بعد انھیں حاصل صدارتی استنثا ختم ہو گیا ہے اور اگر ان پر بڑے کاروباری اداروں بشمول سام سنگ گروپ کے چیف جے وائی لی سے مراعات کے بدلے رشوت لینے کا الزام ثابت ہو جاتا ہے تو انھیں دس سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
جنوبی کوریا میں بدعنوانی سے جڑے اس معاملے نے ایک ایسے وقت زور پکڑا ہے جب کہ پڑوسی ملک شمالی کوریا اور چین کے ساتھ اس کے تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
مقامی ٹی وی چینلز پر منگل کی صبح نشر کیے گئے مناظر میں پارک کو اپنی گاڑی سے اتر کر استغاثہ کے دفتر جاتے ہوئے دکھایا گیا۔ یہ ان کے گھر سے چند منٹ کی مسافت پر ہی واقع ہے اور انھیں پولیس کے حفاظتی حصار میں یہاں تک پہنچایا گیا۔