|
پارک ہیون سو جنوبی کوریا کے دار الحکومت سیول کے ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں گزشتہ ایک دہائی سے رہ رہے ہیں۔ وہ ڈبل شفٹ میں کام کرتے تھے اور اپنے لیے ایک اچھا مکان خریدنے کے لیے پیسہ جوڑ رہے تھے۔
پھر یوں ہوا کہ ایک دن رئیل اسٹیٹ کے فراڈ میں پارک ہیون سو کی ساری جمع پونجھی لُٹ گئی۔
جنوبی کوریا میں مکان کے کرائے کا ایک منفرد نظام ہے جسے ’جیونسے‘ کہتے ہیں جس میں کرائے دار یک مشت مالک مکان کو بڑی رقم ڈپازٹ کے طور پر جمع کراتا ہے۔ عام طور پر یہ رقم پراپرٹی کی قیمت کا 50 یا 70 فی صد تک ہوتی ہے۔
اس ادائیگی کے بعد کرائے دار ماہانہ کرایہ ادا نہیں کرتا اور اسی طرح برسوں اس مکان میں رہتا ہے اور جب اسے مکان چھوڑنا ہوتا ہے تو مالک مکان اسے ڈپازٹ کے طور پر دی گئی رقم لوٹا دیتا ہے۔
اس نظام کے پیچھے یہ آئیڈیا ہے کہ مالک مکان کو بغیر سود کے ایک بڑی رقم اور کرائے دار کو رہائش مل جاتی ہے۔ مالک مکان یکمشت ملنے والی رقم کی سرمایہ کاری کرکے اس سے مزید رقم حاصل کرلیتے ہیں جب کہ کرائے دار معاہدہ ختم ہونے تک مزید رقم جمع کرکے اپنی مرضی کا مکان بنا لیتے ہیں۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس سسٹم میں بہت فراڈ ہونے لگا۔ پولیس ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ جیونسے کے نام پر جنوبی کوریا میں لوگ ایک ارب ڈالر سے زائد رقم سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
کئی مرتبہ پراپرٹی کرائے پر دینے والے جعل سازی کرتے ہیں۔ کوئی رئیل اسٹیٹ ایجنٹ یا جائیداد کا نگران خود کو مالک ظاہر کرکے ڈپازٹ وصول کرتا ہے اور پھر غائب ہو جاتا ہے۔
اسی طرح کئی بار اصل مالکان بھی ڈپازٹ کی رقم سرمایہ کاری میں ڈوبنے کی وجہ سے اس کی ادائیگی سے بچنے کے لیے رفو چکر ہوجاتے ہیں۔
نوے کی دہائی میں جنوبی کوریا میں کرائے پر دی جانے والی جائیدادوں میں لین دین کا یہی طریقہ اختیار کیا جاتا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس طریقۂ کار میں بڑھتے ہوئے رسک کی وجہ سے اس کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔
پارک نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ انہوں نے بڑی محنت سے دو دو شفٹس میں کام کرکے 73 ہزار ڈالرجمع کیے تھے۔ لیکن جب انہیں نے ایک مکان میں رہائش کے لیے یہ رقم ڈپازٹ کرائی تو بعد میں معلوم ہوا کہ جس شخص کو وہ رقم دی تھی وہ اس پراپرٹی کا اصلی مالک ہی نہیں تھا۔رقم وصول ہونے کے بعد وہ شخص غائب ہوگیا اور اب رقم ملنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ صرف رقم نہیں لے کر گیا بلکہ ان کے دورِ نوجوانی کی ساری محنت اڑا لے گیا۔
پار کی عمر 37 برس ہے اور انہوں نے نوجوانی ہی سے اس لیے مکان کے لیے رقم جمع کرنا شروع کی تھی کہ وہ اپنا گھر بسانا چاہتے تھے اس فراڈ کی وجہ سے ان کے کئی خواب چکنا چور ہوگئے۔ اس لیے وہ ’پارک‘ کے نام سے جیونسے کے نام پر فراڈ کا شکار ہونے والے افراد کو انصاف دلانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
حکومتی ڈیٹا کے مطابق جیونسے کے نام پر اب تک 17 ہزار افراد فراڈ کا شکار ہوئے ہیں جن میں سے 70 فی صد کی عمر 20 سے 40 برس ہے۔
فراڈ کا شکار افراد کو انصاف کی فراہمی کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکام متاثرہ افراد کی مدد یا فراڈ کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے مطلوبہ اقدامات نہیں کر رہے ہیں۔ فراڈ کرنے والے اکثر بچ نکلتے ہیں۔ جنوبی کوریا میں فراڈ کی زیادہ سے زیادہ سزا 15 برس ہے۔
SEE ALSO: دبئی ان لاکڈ: 17 ہزار پاکستانی دبئی میں 23 ہزار پراپرٹیز کے مالکخود کُشی
سماجی کارکنوں کے مطابق اب تک جیونسے کے نام پر فراڈ کا نشانہ بننے والوں سات افراد اپنی جان لے چکے ہیں۔
کئی ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے یہ سوچ کر ڈپازٹ کے لیے بینک سے قرض لیا تھا کہ وہ جب مکان چھوڑنے پر انہیں رقم واپس ملے گی تو وہ اسے بینک کو واپس کردیں گے۔ لیکن فراڈ ہونے کے بعد بینک کے بھاری قرض کا بوجھ بھی انہیں اٹھانا ہوگا۔
جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ نے گزشتہ برس فراڈ کا شکار ہونے والے افراد کے لیے ایک قانون سازی کی تھی اور ایک فنانشل سروسز کمیشن بھی تشکیل دیا تھا۔ یہ کمیشن متاثرہ افراد کو غیر سودی قرضے فراہم کرتے ہیں اور ان کی ادائیگی کے لیے 20 برس تک کی مہلت مل جاتی ہے۔
لیکن متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ جو رقم ان سے لوٹ لی گئی ہے وہ اس کی ادائیگی نہیں کریں گے جب تک حکومت فراڈ کرنے والوں سے ان جمع پونجھی بازیاب نہیں کراتی۔
جنوبی کوریا میں اپوزیشن کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی نے ایک بل متعارف کرایا ہے جس میں فراڈ کا شکار ہونے والے افراد کو حکومت کی جانب سے رقم ادا کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ ایسے کسی اقدام سے خزانے پر بوجھ پڑے گا جب کہ ایک حکومتی وزیر نے یہ بھی کہا ہے کہ نوجوان اپنی جلد بازی کی وجہ سے نقصان اٹھا رہے ہیں۔
اپوزیشن کے مجوزہ بل پر 28 مئی کو ووٹنگ ہوگی۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہے۔