ملک کی وزارت اطلاعات کا کہنا ہے کہ دارالحکومت جوبا میں صورتحال مکمل طور پر سکیورٹی فورسز کے قابو میں ہے۔
جنوبی سوڈان کی فوج نے اعلان کیا ہے کہ دارالحکومت جوبا کے شمال میں واقع علاقے بور پر اس کا کنٹرول ختم ہو گیا ہے۔ یہ علاقہ فوج کے ہاتھ سے حکومت کے بقول ’’ناکام بغاوت‘‘ کے بعد شروع ہونے والی لڑائیوں کے نتیجے میں ختم ہوا۔
جنوبی سوڈان کی ریڈ کراس تنظیم کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں 19 شہری ہلاک ہوئے۔
ملک کی وزارت اطلاعات کا کہنا ہے کہ دارالحکومت جوبا میں صورتحال مکمل طور پر سکیورٹی فورسز کے قابو میں ہے۔ حکام کے مطابق گزشتہ اتوار کو شروع ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں پانچ سو افراد ہلاک اور سات سو کے لگ بھگ زخمی ہو چکے ہیں۔
صدر سلواکیر کا الزام ہے کہ یہ جھڑپیں جولائی میں برطرف کیے جانے والے ان کے نائب صدر ریئک ماچار کی حامی فورسز کی طرف سے ناکام بغاوت کے بعد شروع ہوئیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ صدر اپنے مخالفین سے بات چیت اور اقوام متحدہ سے تعاون کریں۔
مسٹر بان کا کہنا تھا کہ ’’ یہ ایک سیاسی بحران ہے اور اسے فوری طور پر سیاسی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تشدد کا دوسری ریاستوں تک پھیلنے کا خدشہ ہے اور ہم اس کے آثار پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔‘‘
صدر کیر بدھ کو یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ مسٹر ماچار سے بات چیت پر آمادہ ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ لگ بھگ 20 ہزار افراد نے جوبا میں ان کے مشن میں پناہ لے رکھی ہے۔ جنوبی سوڈان کے حکام نے خونریز جھڑپوں کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کر جانے والوں کو واپس آنے کا کہا ہے۔
انٹرنیشنل کمیٹی برائے ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ شہریوں کی اکثریت ’’گھروں کو واپس جانے کے بارے میں شدید خوف میں مبتلا ہے۔‘‘
کمیٹی کی ترجمان سنتھیا لی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جوبا کے دو مرکزی اسپتالوں میں جھڑپوں میں زخمی ہونے والے والوں کا رش موجود ہے۔ ان کے بقول ان کے ادارے نے ان اسپتالوں کو زخمیوں کی مرہم پٹی کے لیے طبی سامان فراہم کیا ہے۔
مبصرین اس بات کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں نیئور قبیلے سے تعلق رکھنے والے ماچار اور ڈنکا قبائل کے کیر کے درمیان اس کشیدگی سے جنوبی سوڈان میں قبائلی فسادات مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں۔
جنوبی سوڈان کی ریڈ کراس تنظیم کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں 19 شہری ہلاک ہوئے۔
ملک کی وزارت اطلاعات کا کہنا ہے کہ دارالحکومت جوبا میں صورتحال مکمل طور پر سکیورٹی فورسز کے قابو میں ہے۔ حکام کے مطابق گزشتہ اتوار کو شروع ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں پانچ سو افراد ہلاک اور سات سو کے لگ بھگ زخمی ہو چکے ہیں۔
صدر سلواکیر کا الزام ہے کہ یہ جھڑپیں جولائی میں برطرف کیے جانے والے ان کے نائب صدر ریئک ماچار کی حامی فورسز کی طرف سے ناکام بغاوت کے بعد شروع ہوئیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ صدر اپنے مخالفین سے بات چیت اور اقوام متحدہ سے تعاون کریں۔
مسٹر بان کا کہنا تھا کہ ’’ یہ ایک سیاسی بحران ہے اور اسے فوری طور پر سیاسی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تشدد کا دوسری ریاستوں تک پھیلنے کا خدشہ ہے اور ہم اس کے آثار پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔‘‘
صدر کیر بدھ کو یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ مسٹر ماچار سے بات چیت پر آمادہ ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ لگ بھگ 20 ہزار افراد نے جوبا میں ان کے مشن میں پناہ لے رکھی ہے۔ جنوبی سوڈان کے حکام نے خونریز جھڑپوں کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کر جانے والوں کو واپس آنے کا کہا ہے۔
انٹرنیشنل کمیٹی برائے ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ شہریوں کی اکثریت ’’گھروں کو واپس جانے کے بارے میں شدید خوف میں مبتلا ہے۔‘‘
کمیٹی کی ترجمان سنتھیا لی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جوبا کے دو مرکزی اسپتالوں میں جھڑپوں میں زخمی ہونے والے والوں کا رش موجود ہے۔ ان کے بقول ان کے ادارے نے ان اسپتالوں کو زخمیوں کی مرہم پٹی کے لیے طبی سامان فراہم کیا ہے۔
مبصرین اس بات کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں نیئور قبیلے سے تعلق رکھنے والے ماچار اور ڈنکا قبائل کے کیر کے درمیان اس کشیدگی سے جنوبی سوڈان میں قبائلی فسادات مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں۔