جنوبی سوڈان میں امن کی عالمی کوششیں

امریکہ نے کہا ہے کہ اس کے 150 فوجی جبوتی پہنچ گئے ہیں جہاں سے وہ جنوبی سوڈان جائیں گے اور وہاں سے امریکی شہریوں کے انخلا کے علاوہ امریکی تنصیبات کی حفاظت پر معمور ہوں گے۔
اقوام متحدہ جنوبی سوڈان میں امن مشن کے مزید ساڑھے پانچ ہزار فوجی بھیج رہا ہے جب کہ عالمی ادارے کے حکام نے اطلاع دی ہے کہ اس ملک میں گزشتہ ہفتے شروع ہونے والی لڑائی میں بظاہر ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے منگل کو ایک قرارداد پر رائے شماری کی جس میں جنوبی سوڈان کی طرف مزید 5500 فوجی بھیجنے کا کہا گیا۔

سیکرٹری جنرل بان کی مون کا کہنا تھا کہ ان فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی تعیناتی میں وقت لگ سکتا ہے۔ تاہم انھوں نے ایک بار پھر ملک کے رہنماؤں کو اپنے اختلافات مذاکرات کے ذریعے دور کرنے پر زور دیا۔

امریکہ کے وزیرخارجہ جان کیری نے جنوبی سوڈان کے صدر سلوا کیر اور سابق نائب صدر ریئک ماچار سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور ان سے لڑائی روکنے اور سیاسی مذاکرات شروع کرنے پر زور دیا۔


دونوں اشخاص نے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا لیکن حکومت نے حزب مخالف کے رہنماؤں کو پہلے رہا کرنے کے مسٹر ماچار کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔

ادھر اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے حکام کا کہنا ہے کہ بنتیو کے علاقے میں ایک اجتماعی قبر دریافت ہوئی ہے۔ ترجمان راوینا شمداسانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار نے اس قبر میں 14 لاشیں جب کہ قریب ہی دریائے کنارے 20 مزید لاشیں دیکھی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ لاشیں ڈنکا قبیلے سے تعلق رکھنے لاپتہ فوجیوں کی ہو سکتی ہیں۔

صدر کیر کا تعلق ڈنکا قبیلے سے ہے جب کہ ان کے مخالف ماچار کا تعلق نیور قبلیے سے ہے۔

امریکہ نے کہا ہے کہ اس کے 150 فوجی جبوتی پہنچ گئے ہیں جہاں سے وہ جنوبی سوڈان جائیں گے اور وہاں سے امریکی شہریوں کے انخلا کے علاوہ امریکی تنصیبات کی حفاظت پر معمور ہوں گے۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر براک اوباما نے منگل کو ڈنکا اور نیور زبانوں میں پیغامات جاری کیے ہیں جن میں لڑائی ختم کرنے کا کہا گیا ہے۔

دریں اثناء جنوبی سوڈان کے صدر سلوا کیر نے اپنے ملک کے حالیہ تنازع پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے "طاقت کے زور سے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش" کرنے والوں کی مذمت کی ہے۔


انھوں نے معصوم شہریوں کی ہلاکتوں کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے ایسے لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جو "اپنے قبائلی تعلق کی وجہ سے ان لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔"

ایک تحریری بیان میں جنوبی سوڈان کے صدر کا کہنا تھا کہ انھوں نے ملک کی سکیورٹی فورسز کو "شہریوں کو کسی بھی طرح ڈرانے دھمکانے یا ان سے بدسلوکی کرنے سے" باز رہنے کا حکم دیا ہے۔

مسٹر کیر نے اس تنازع میں ملوث تمام افراد پر زور دیا کہ وہ "آزادی حاصل کرنے والے اس نئی قوم کے مفاد کو مقدم رکھیں۔" اپنے سابق نائب صدر ریئک ماچار اور ان کی حامی فورسز کا نام لیتے ہوئے ان سے بھی ایسا کرنے کا مطالبہ کیا۔

جنوبی سوڈان میں گزشتہ ہفتے بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد سے لڑائی شروع ہوئی تھی جس میں اب تک سینکڑوں افراد ہلاک اور لگ بھگ 80 ہزار سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔