جنوبی سوڈان کے صدر سلوا کیر نے ایک امن معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں جس کا مقصد حکومت اور ان کے سابق نائب ریک ماشر کی قیادت میں باغی فورسز کے درمیان 20 ماہ سے جاری لڑائی کو ختم کرنا ہے۔
مگر معاہدے پر دارالحکومت جُبا میں دستخط کرنے کے باوجود کیر نے معاہدے کی شرائط پر تحفظات کا اظہار کیا۔
انہوں نے معاہدے پر دستخط کی تقریب میں موجود افریقی رہنماؤں سے کہا کہ ’’موجودہ امن معاہدہ جس پر ہم آج دستخط کر رہے ہیں اس میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جنہیں ہمیں مسترد کرنا ہو گا۔ اگر ان تحفظات کو نظر انداز کر دیا گیا تو یہ منصفانہ اور پائیدار امن کے مفاد میں نہیں ہو گا۔‘‘
معاہدے میں کیر کو 30 ماہ کے لیے عبوری حکومت کا صدر بنایا گیا ہے جبکہ ماشر ان کے نائب کے طور پر فرائض سرانجام دیں گے۔
ماشر اور سابق سیاسی قیدی پگین اموم نے اس معاہدے پر 17 اگست کو ادیس ابابا میں دستخط کیے تھے۔ یہ معاہدہ ایک بین الاقوامی ٹیم کی ثالثی میں ہوا ہے۔
ماشر نے کہا تھا کہ انہوں نے اس معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں مگر وہ بھی اس کی بہت سی شقوں سے اتفاق نہیں کرتے۔
کیر کے معاہدے پر دستخط کے بعد ماشر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’مجھے امن معاہدے کے 20 نکات پر تحفظات ہیں مگر جب میں ان تحفظات کا اس بات سے موازنہ کرتا ہوں کہ ہم اس معاہدے پر دستخط کرکے کیا حاصل کرسکتے ہیں، ہم جنوبی سوڈان کے لیے امن حاصل کر سکتے ہیں، تو میرا خیال ہے کہ ہم اس کے ساتھ سمجھوتا کر سکتے ہیں۔ جنوبی سوڈان کے لوگوں کے لیے امن زیادہ اہم ہے۔‘‘
وائٹ ہاؤس نے کیر کے معاہدے پر دستخط کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ’’درست فیصلہ‘‘ قرار دیا ہے۔
مگر وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے خبردار کیا کہ امریکہ صرف اسی صورت میں معاہدے کو قبول کرے گا اگر اس پر بغیر ’’تحفظات اور ضمیمہ جات‘‘ کے دستخط کیے جائیں۔
صدر سلوا کیر 17 اگست کو ایتھوپیا کے دارالحکومت میں ہونے والی تقریب جس میں ماشر اور اموم نے معاہدے پر دستخط کیے موجود تھے۔ مگر انہوں نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کی حکومت نے اس معاہدے کی کچھ شقوں پر اعتراض کیا تھا جس میں اختیارات کی تقسیم اور جُبا کو فوج سے پاک کرنے کے منصوبے کی شقیں شامل ہیں۔