اسپین میں ماہواری کی تکلیف میں مبتلا خواتین کو بیماری کی چھٹی کی طرز پر معاوضے کے ساتھ چھٹی دینے کا قانون متوقع طور پر منظور ہونے جا رہا ہے۔
اس قانون کے منظور ہونے پر یورپ ہی نہیں ترقی یافتہ مغربی دنیا میں اسپین، خواتین کو یہ حق دینے والا پہلا ملک بن جائے گا۔
یورپ میں خواتین کی تولیدی اور ماہواری صحت کے حوالے سے ایک اہم قدم اسکاٹ لینڈ کی جانب سے بھی اٹھایا گیا تھا جب حکومت کی جانب سے نومبر 2020 میں یہاں تمام خواتین کے لیے سینیٹری نیپکنز مفت فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا۔
اسپین کی پارلیمنٹ میں گزشتہ ہفتے خواتین کی تولیدی صحت کا بل زیر بحث رہا جس میں خواتین کو ماہواری کی تکلیف میں دفتر آنے یا ملازمت کرنے سےاستثنیٰ دینے پر غور کیا گیا۔ توقع ہے کہ یہ بل اس ہفتے منظور ہوجائے گا۔
اسپین میں بائیں بازو کی اتحادی حکومت اس نئے مجوزہ بل میں 2015 میں دائیں بازو کی حکومت کی جانب سے بنائے گئے ایک ایسے قانون کو بھی ختم کرنے جارہی ہے جس میں سولہ اور سترہ سال کی عمر کی خواتین کے ابارشن یعنی اسقاط حمل کو والدین کے اجازت نامے سے مشروط کیا گیا تھا۔
بائیں بازو کی جماعت پوڈیموز سے تعلق رکھنے والی اسپین کی وزیر مساوات آئرین مونٹیرو کا کہنا ہے کہ اسقاط حمل قانون میں اصلاحات خواتین کے محفوظ اسقاط حمل کے حق کو ممکن بنائیں گی۔
سوشل میڈیا پر شیئر کیے گیے ایک انٹرویو کے ساتھ وزیر مساوات نے لکھا کہ یہ فخر کی بات ہے کہ خواتین کی ماہواری صحت کے حقوق کو تسلیم کرنے والا اسپین تمام یورپ میں پہلا ملک بننے جا رہا ہے۔
یہ بل جو اسپین کی کابینہ میں منظوری کے لیے منگل کے روز پیش کیا جائے گا اس کے تحت ماہواری کی تکلیف میں مبتلا خواتین ایک سے پانچ روز تک با معاوضہ چھٹی کی حقدار ہونگی۔
اس کے علاؤہ اس نئے بل میں سینیٹری نیپکنز جیسی حفظان صحت کی اشیاء پر ویلیو ایڈڈ ٹیکس ختم کرنے کی سفارش بھی شامل ہے۔
یورپ میں بعض نجی اداروں نے ماہواری یا پیریڈ پالیسیز اپنائی ہوئی ہیں مگر اس پر باقاعدہ قانون سازی کرنے والا اسپین پہلا ملک ہوگا۔
جاپان، جنوبی کوریا اور انڈونیشیا جیسے ایشیائی ممالک میں کافی عرصے سے ماہواری کی چھٹیوں پر پالیسیز موجود ہیں بلکہ بعض تحقیقی مقالوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ "پیریڈ لیو" یا ماہواری کی چھٹی کا رواج انیس سو بیس کی دہائی میں سوویت حکومت کی سوشلسٹ پالیسیز کے تحت بھی موجود تھا۔
SEE ALSO: 'پیڈز ایسے چھپا کردیئے جاتے ہیں، جیسے یہ کوئی حرام شے ہو'ایشیا کے ایک اور ملک چین کے بھی بعض صوبوں میں ورک فورس میں ماہواری پالیسی نافذ ہے۔ بھارتی لوک سبھا میں پیش کیا گیا Menstrual Benfits Bill 2017 قانون نہ بن پایا تاہم بھارتی ریاست بہار میں لالو پرساد یادوو حکومت نے 1992 میں ہی خواتین کی مہینے میں دو روز ماہواری کی چھٹی کی منظوری دے دی تھی۔ کتنی خواتین بلا جھجھک یہ چھٹیاں لے پاتی ہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے.
بھارت میں ڈلیوری سروس زمیٹو اور پاکستان میں سووفٹ لاجسٹکس وہ کمپنیاں ہیں جو خواتین ملازمین کو پیریڈ لیووز کی گنجائش دیتی ہیںَ۔
جاپان نے 'پیریڈ لیو' کی پالیسی دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد 1947 میں اپنائی تاہم جاپانی اشاعتی ادارے Nikkei Business Publications کے ایک سروے کے مطابق محض 10فیصد خواتین ہی ماہواری کی چھٹی لیتی ہیں۔ سروے میں پچاس فیصد سے زائد خواتین کا کہنا تھا کہ ان کے اداروں میں ماہواری کی تکلیف کا ادراک نہیں ہے.
نکے کے سروے میں 47 فیصد سے زائد خواتین کا کہنا تھا کہ وہ ماہواری کی تکلیف یا پیچیدگیوں کی وجہ سے کبھی چھٹی لینا چاہتی ہیں لیکن انہوں نے ایسا آج تک نہیں کیا۔ ان میں سے 61.8 فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ ان کے باس مرد ہیں اس لیے انہیں ایسی درخواست کرنا معیوب لگتا ہے جبکہ 50.5 فیصد کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس لیے ایسا نہیں کیا کہ ماہواری کی چھٹی لینا معاشرے میں عام نہیں ہے۔
اسپین میں ماہواری کی چھٹی کی حوالے سے متضاد رائے پائی گئی ہیں۔ ملک کی بڑی مزدور یونین، جنرل یونین آف ورکرز کا کہنا ہے کہ اس قانون سے خواتین ورکرز رسوا ہونگی اور انہیں ملازمت کی جگہ پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مقامی ریڈیو سیڈانا سر سے گفتگو میں جنرل یونین آف ورکرز کی ممبر کرسٹینا انتونانزا کا کہنا تھا کہ شاید اس سے خواتین کو فائدے کے بجائے نقصان ہی ہو کیونکہ اس سے خواتین کو اسٹگما کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اینڈومیٹریوسس خواتین کی تولیدی صحت کا ایسا مسئلہ ہے جس سے ماہواری کی تکلیف مذید شدت اختیار کر جاتی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ایسوسی ایشن آف وکٹمز آف اینڈومیٹریوسس کی اینا فیرر کا کہنا تھا کہ گو کہ اس قانون کا مقصد خواتین کے حقوق کی حفاظت ہے مگر اس سے خواتین کے ساتھ تعصب برتےجانے کا احتمال رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ چھٹی سے زیادہ ہم خواتین چاہتی ہیں کہ ہماری تکلیف کو پہچانا جائے اوراس کا احساس کیا جائے۔
دوسری طرف بل کے حامی اس فیصلے کا خیر مقدم کر ر ہے ہیں۔ بل کے بعض حامیوں کا کہنا ہے کہ اگر مردوں کو ماہواری کے مسائل کا سامنا ہوتا تو ایسا قانون بہت پہلے بن چکا ہوتا۔
کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہےکہ صرف ماہواری پر خصوصی چھٹیاں دینے سے نہ صرف خواتین انہیں لینے سے شاید کترائیں کیونکہ یہ پورے دفتر میں ان کی ماہواری کے اعلان کے مترادف ہوگا بلکہ اس پر کئی ایسے افراد بھی تنقید کریں گے جو کسی مستقل بیماری جیسے کمر درد کی وجہ سے کام سے آئے روز مؑعذوری محسوس کرنے کے باوجود ملازمت پر جاتے ہیں۔ ان ماہرین کے مطابق پیریڈ لیو کے بجائے اگر بیماری کی مد میں دی گئی چھٹیوں کی تعداد بڑھا دی جائے تو اس سے وہ تمام افراد استفادہ کر سکیں گے جنہیں اس کی ضرورت ہو اور خواتین بھی زیادہ اطمینان سے یہ چھٹیاں لے سکیں گی۔