|
منگل کے روز فلسطینی اتھارٹی کےصحت کے عہدہ داروں نے اطلاع دی ہے کہ غزہ شہر کے کویت اسکوائر میں اسرائیلی فوجیوں نے ایک ہجوم پر فائرنگ کر دی جو امدادی ٹرکوں کا انتظار کر رہا تھا، جس سے 9 فلسطینی ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ اسرائیل نے فوری پر طور پر اس واقعہ پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
گزشتہ ماہ ایک ایسے ہی ایک واقعہ میں امداد کی تقسیم کے موقع پر افراتفری اور اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے 100 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو گئے تھے۔تاہم اسرائیل ان ہلاکتوں کا ذمہ دار بھگڈر کو قرار دیتا ہے۔
SEE ALSO: غزہ میں امداد کے خواہاں 112 فلسطینیوں کی ہلاکت کی بڑے پیمانے پر بین الاقوامی مذمتغزہ کی وزارت صحت کے ترجمان اشرف القدرہ نے منگل کے روز کہا کہ بھوکے لوگوں کے اجتماع پر فائرنگ روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بھوک شمالی غزہ کے تمام باشندوں کی جان لے لے گی۔ امداد بہت کم ہے اور خوراک کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ لوگوں کی موت یقینی ہے۔ دنیا کو چاہئے کہ وہ ان کی مدد کریں اور انہیں بھوک، بمباری اور بیماری کا شکار نہ ہونے دیں۔
اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ غزہ کی ایک چوتھائی آبادی بھوک اور خوراک کی قلت کے باعث ہلاک ہو سکتی ہے۔
سرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کو پانچ مہینے ہو چکے ہیں۔ جنگ میں وقفے کی صورت میں امداد کی فراہمی میں بہتری آ سکتی ہے۔ واشنگٹن کئی ہفتے قبل سے اسرائیل اور حماس کے درمیان عارضی جنگ بندی اور یرغمالوں کی واپسی کے لیے مذاکرات میں ثالثی کر رہا ہے۔
مصر میں ہونے والے ان مذاکرات میں متحدہ عرب امارات اور مصر بھی شامل ہیں۔ صدر بائیڈن کی کوشش تھی کہ رمضان کے مقدس مہینے کے لیے جنگ میں وقفہ ہو سکے اور یرغمال اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ لیکن ابھی تک کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکا ہے۔
قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے منگل کے روز کہا کہ اسرائیل اور حماس ابھی تک جنگ بندی کے کسی معاہدے کے قریب نہیں پہنچ سکے ہیں کیونکہ ان کے درمیاں جنگ روکنے، یرغمالوں کی رہائی اور امداد کی ترسیل کی شرائط پر اتفاق نہیں ہو سکا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی دلچسپی یرغمالوں کو رہا کرانے کے لیے ایک عارضی جنگ بندی میں ہے جب کہ حماس کا کہنا ہے کہ وہ یرغمالوں کو صرف اسی صورت جانے کی اجازت دے گا جب اسرائیل مستقل جنگ بندی کا معاہدہ کرے گا۔
مشرق وسطیٰ میں جاری جنگ کی وجہ سے یورپ پر پناہ گزینوں کا بوجھ بڑھ سکتا ہے۔ جس کی ایک تازہ مثال لبنان سے ماہی گیری کی کشتیوں کے ذریعے پیر کے روز پہنچے والے 400 سے زیادہ پناہ گزینوں کی آمد ہے۔
دیرالبلح میں پناہ لینے والے چار بچوں کے والد یامین نے رائٹرز کو بتایا کہ ہمیں دو طریقوں سے مارا جا رہا ہے۔ پہلی یہ کہ خوراک کی شدید قلت ہے اور دوسرا یہ کہ جو تھوڑی بہت دستیاب ہے وہ تصور سے بھی زیادہ مہنگی ہے۔
SEE ALSO: دو پاکستانی امریکی بہنوں کی غزہ کے بچوں کی مدد کیلیے منفرد کوششاسرائیل حماس جنگ نے غزہ کی 23 لاکھ آبادی میں سے زیادہ تر کو بے گھر کر دیا ہے، جن کی نصف سے زیادہ تعداد نے جنوبی شہر رفح میں عارضی خیموں میں پناہ لے رکھی ہے اور ان میں سے اکثر کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے امداد کی تقسیم کے دوران افراتفری اور ہلاکت خیز مناظر دیکھنے میں آتے ہیں۔
(اس آرٹیکل کی معلومات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)