اب سائنس دانوں کے سامنے سوال یہ ہے کہ آیا جدید سائنس کی بنیاد ایک ٹیڑھی اینٹ پر رکھی گئی ہے؟
آج تک یہ کہاجاتا رہاہے کہ اس کائنات کی سب سے تیزرفتار چیز روشنی ہے ، جس کی گرد کوئی نہیں پاسکتا ۔ اس نظریے کو جدید سائنس کی بنیاد سمجھا جاتا ہے ،مگرسائنس دانوں کی ایک ٹیم نے اپنے حالیہ تجربات کے بعد اسے باطل قرار دے دیا ہے ۔
آج کی جدید طبعیات، جس کاتعلق، ایٹم کی ساخت اور کائنات کے اسرار ورموز سے ہے، آئن سٹائن کے نظریہ اضافت پر کام کررہی ہے۔ انہوں نے یہ نظریہ 1905ء میں پیش کیا تھا جس کے مطابق توانائی اور مادے کو ایک دوسرے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ان کےنظریے میں روشنی کی رفتار کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔ جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ایک لاکھ 86 ہزارمیل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔
روشنی کائنات کی ایک اہم ترین توانائی ہے اور اس کائنات میں موجود چیزوں کے وجود کا احساس ہمیں روشنی ہی دلاتی ہے۔ جدید فزکس میں ستاروں ، سیاروں اور کہکشاؤں کے درمیان فاصلوں اور رفتار کا تعین روشنی کی رفتار سے ہی کیا جاتا ہے۔ مگر اب فزکس اور کائنات کی تخلیق پر تحقیق کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی تجربہ گاہ کے سائنس دانوں نے کہاہے کہ مسلسل تین سال سے جاری ان کے حالیہ تجربوں سے یہ ثابت ہوا کہ’ نیوٹرینو‘ کی رفتار روشنی کی رفتار سے تیز ہے۔
نیوٹرینوکیاہے؟
نیوٹرینو ایٹم کا انتہائی مختصر جزو ہے ۔ اس میں مادے کی انتہائی قلیل مقدار ہوتی ہے۔ اس پر کوئی منفی یا مثبت برقی چارج نہیں ہوتا۔ وہ بلاروک ٹوک ہر چیز کے اندر سے، اپنے وجود کا احساس دلائے ، یا اس میں کوئی تبدیلی لائے بغیر گذر سکتا ہے۔ نیوٹرینو کائنات میں ہر جگہ موجود ہے۔ سورج کے اندر سے روشنی، حرارت اور دیگر تابکاری کے ساتھ نیوٹرینو بھی خارج ہورہاہے۔ اور یہ عمل کائنات میں توانائی اور تابکاری پیدا کرنے والی ہر چیز میں جاری ہے۔
کائنات کی تخلیق سے متعلق تحقیق کے لیے گذشتہ چند برسوں سے جنیوا کے نزدیک سب سے بڑی تجربہ گاہ ’سرن ‘ میں ایسے ذرات پر تجربات کیے جارہے ہیں جنہیں بعض سائنس دان ’گارڈ پارٹیکل‘ بھی کہتے ہیں۔ اور ان کے بارے میں یہ تصور ہے کہ وہ کائنات کی ہر چھوٹی سے چھوٹی اکائی میں موجود ہے۔
سرن لیبارٹر میں تحقیق کرنے والے سائنس دانوں کے ایک ترجمان ایتونیوفریدیتالتو نے23 ستمبر کو یہ اعلان کیا کہ تجربات سے یہ ثابت ہوگیاہے کہ نیوٹرینو کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ ہے۔ اگرچہ یہ فرق بہت معمولی ہے۔
اس تجربے کے دوران نیوٹرینوز کو سرن لیبیاٹری سے اٹلی میں سات سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع گران ساسو کی تجربہ گاہ میں بھیجا گیا اور اس کی رفتار کی پیمائش کی گئی۔انہوں نے بتایا کہ نیوٹرینو کی بیم اپنے مقررہ مقام پر روشنی کے مقابلے میں 60 نینو سیکنڈ پہلے پہنچ گئی۔ ایک سیکنڈ کا ایک ارب واں حصہ نینو سیکنڈ کہلاتا ہے۔
ترجمان نے کہاہے کہ اس اعلان سے قبل سائنس دانوں نے اپنے نتائج کی بار بار جانچ پڑتال کی ہے اور ہر طرح کے اطمینان اور تصدیق کے بعد یہ نتائج جاری کیے جارہے ہیں۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ اس تحقیق کو دنیا بھر کے سائنس دانوں کے مطالعے اور مزید تحقیق و تصدیق کے لیے ویب پر ڈالا جارہاہے۔
سیرن لیبارٹری ایک زیر زمین تجربہ گاہ ہے جو روم سے 120 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔اس لیبارٹری میں جوہری ذرات کو کائنات میں پائی جانے والی کائناتی لہروں سے محفوظ رکھنے کے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ اس طرح کی چھوٹی تجربہ گاہیں امریکہ میں بھی موجود ہیں۔
نئے امکانات کیا ہیں؟
ان نتائج کے بعد عام سائنسی معمولات پر بظاہر کوئی بڑا اثرنہیں پڑے گا مگرروشنی کی رفتار اور وقت سے متعلق سائنسی قوانین کا ممکن ہے کہ پھر سے جائزہ لینا پڑے۔
رفتار کی طرح وقت کائنات کی ایک اہم حقیقت ہے۔رفتار اور وقت کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ جیسے جیسے رفتار بڑھتی ہے، وقت اسی تناسب سے سست پڑتاجاتا ہے۔جس نسبت سے وقت سست پڑتا ہے، اسی تناسب سے عمر میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ مثال کے طورپر اگر کوئی شخص کسی ایسے خلائی جہاز میں سوار ہوجاتا ہے جس کی رفتار روشنی کی رفتار کے دسویں حصے کے برابر ہے۔ تو اس شخص کی عمر زمین پر رہنے والوں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہوگی۔
اس اصول کے تحت جب کوئی چیز روشنی کی رفتار کو پہنچ جائے تو وقت کی رفتار صفر ہوجاتی ہے۔ گویا وقت تھم جاتا ہے۔ چونکہ ایسا ناممکن سمجھا جاتا ہے، اس لیے سائنس دان اب تک یہ کہتے آئے ہیں کہ کوئی چیز روشنی کی رفتار کو نہیں پہنچ سکتی۔
لیکن اب اس نئی دریافت کے بعد، ٹائم مشین کا تصور کے تصور پر بھی سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔ یعنی ایسی مشین کی ایجاد کے بارے میں جس کے ذریعے انسان اپنے ماضی میں سفر کرسکے اور خود کو ماضی میں چلتا پھرتا دیکھ سکے۔ کیونکہ نیوٹرینو نے روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار حاصل کرنے کے بعد بھی اپنا سفر جاری رکھاہے اور وہ ماضی یعنی واپسی کی طرف نہیں گئے۔
روشنی سے تیز رفتار جوہری ذرے کی دریافت سائنسی دنیا کی ایک ایسی اہم ترین پیش رفت ہے جس نے آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کے ایک صدی کے طلسم کو توڑدیا ہے۔ مگر سائنس میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی اور آج کے جدید سائنس کی بلندوبالا عمارت کی بنیادیں ماضی کے سائنسی نظریات کی قبروں میں پیوسط ہیں۔