ملک بھر میں کیے جانے والے آپریشن کے نتیجے میں لندن سمیت مختلف شہروں سے تقریباً 141غیر قانونی تارکین وطن کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں ۔
لندن —
برطانیہ میں ان دنوں برطانوی سرحدی ایجنسی کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن کی پکڑ دھکڑ کے عمل کو تیز کر دیا گیا ہے ۔ غیر قانونی تارکین وطن کی تلاش میں امیگریشن حکام کی جانب سے متعددکارروائیاں کی گئیں جن کے نتیجے میں سینکڑوں گرفتاریں عمل میں لائی گئی ہیں۔
گذشتہ ہفتے امیگریشن حکام نے لندن میں بھی بڑے پیمانے پر اسپاٹ چیکنگ اور چھاپے مارنےکی کارروائیاں کئیں۔
اسپاٹ چیکنگ کا عمل مشرقی لندن کے دو زیر زمین ٹیوب اسٹیشنوں والتھم اسٹو اور اسٹراٹ فورڈ کے علاوہ کینزل گرین میں کی گئیں۔ ملک بھر میں کئے جانے والےآپریشن کے نتیجے میں اب تک لندن سمیت مختلف شہروں سے تقریباً 141غیر قانونی تارکین وطن کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔
ادھر حزب اختلاف کی جماعت ’ لیبر‘ سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے امیگریشن حکام کی ان کاروائیوں پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے اسےمتعصبانہ قرار دیا ہے جس کا نشانہ صرف مخصوص نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بنایا جا رہا ہے تو دوسری جانب پناہ گزین گروپ نے بھی اس طریقہ کارپر تنقید کی ہے جبکہ ،سوشل میڈیا ٹوئٹر پرلکھے جانے والے پیغامات میں لوگوں نے ان کاروائیوں پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
ہفتے کو امیگریشن کے وزیر مارک ہارپر نےبرطانوی روزنامہ ’آبزرور‘ سے ایک انٹرویو میں حکومتی فیصلے کا دفاع کرتے ہو ئے کہا کہ ، غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف ہونے والے آپریشن پر لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں اور ان کے بقول ایسی کارروائیوں کا مقصد نسل پرستی کو ہوا دینا نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ ، لندن میں امیگریشن حکام کی کارروائیاں خفیہ ایجنسی کی اطلاعات پر کی گئی تھیں جس میں غیر قانونی طور پر کام کرنے والوں کی نشاندہی کی گئی تھی اور ان جگہوں پر چھاپے مارنے سے ہمیں بڑی کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے ۔
دوسری جانب لندن کے زیر زمین ٹیوب اسٹیشنوں پر اسپاٹ چیکنگ کی کارروائی کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کے جواب میں انھوں نے کہا کہ لوگوں کو روکنے کے عمل میں ان سے معمول کے سوالات کئے گئے اور اس دوران گرفتار ہونے والے افراد کو بھی ان کے رنگ کی وجہ سے نہیں روکا گیا تھا بلکہ مشتبہ نظر آنے پر انھیں روک کر سوالات کئے گئے ۔
تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ، چھاپے کی کارراوئیاں اگرچہ معمولی نوعیت کی ہوتی ہیں لیکن ایسی کارروائیوں سے دیکھنے والوں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ اگر کوئی بھی برطانیہ میں غیر قانونی طور پر مقیم ہے یا غیر قانونی طور پر کام کر رہا ہے تو اسے گرفتار کیا جاسکتا ہے جبکہ غیر قانونی تارکین وطن کو ملازمت پر رکھنے والوں سے دس ہزار پاؤنڈ جرمانہ وصول کیا جاتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ حکومت غیر قانونی تارکین وطن کی تلاش کا عمل جاری رکھے گی اور مستقبل میں مزید اسی قسم کی کارروائیاں عمل میں لائی جائیں گی۔
حزب اختلاف لیبر پارٹی کی ایک رہنما ڈورین لارنس نے اسپاٹ چیکنگ کے اقدام کے خلاف برطانوی آئی ٹی وی سے ایک انٹرویو میں کہا کہ یقیناً ایسی کارروائیاں کی جانی چاہیئں لیکن ان کارروائیوں کا نشانہ بننے والے زیادہ تر افراد ایک جیسے رنگ رکھنے والے لوگ ہی کیوں ہیں ۔ ’’مجھے یقین ہے کہ برطانیہ میں ہر ملک کے غیر قانونی افراد موجود ہیں لیکن صرف ایک ہی رنگ کے لوگوں سے باز پرس کیوں کی جارہی ہے۔‘‘
لیبر پارٹی کے ایک اور رہنما کرس برائنٹ نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ہوم آفس سے مطالبہ کیا ہے کہ گذشتہ ہفتے غیر قانونی تارکین وطن کی تلاش میں ٹیوب اسٹیشنوں پر کی جانے والی کارروائیوں میں روک کر پوچھ گچھ کرنے والوں اور گرفتار ہونے والےایسے افراد کی لسٹ فراہم کی جائے جن کا تعلق نسلی گروہوں سے ہے کیونکہ یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ ،ہر سیاہ رنگت والے فرد کو ٹرین کے اسٹیشنوں پر روکا گیا اورپوچھ گچھ کی گئی ’’اگر ایسا ہوا ہے تو یہ عمل قطعی ناقابل قبول ہے کیونکہ امیگریشن کے قواعد کے مطابق صرف انہی لوگوں سے روک کر تفتیش کی جاسکتی ہے جن کے بارے میں خفیہ ایجنسی سے معلومات حاصل کی گئی ہوں ۔‘‘
ہیومن رائٹس کمیشن کی جانب سے بھی امیگریشن حکام کی کارروائیوں کے خلاف ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا گیا ہے ۔
ادھر مارک ہارپر کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید کارروائیاں عمل میں لائی جائیں گی جس کے بعد ہوم آفس گرفتار ہونے والے افراد کے اعداد وشمار جاری کرے گا ۔
برطانوی سرحدی ایجنسی کی جانب سے ان دنوں لندن میں ایک متنازع اشتہاری مہم بھی چلائی جارہی ہے جس کے لیے امیگریشن ٹیم کی وین پر ایک اشتہار چسپاں کیا گیا ہے کہ ،’’گھر جاؤ یا گرفتاری کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘
گذشتہ ہفتے امیگریشن حکام نے لندن میں بھی بڑے پیمانے پر اسپاٹ چیکنگ اور چھاپے مارنےکی کارروائیاں کئیں۔
اسپاٹ چیکنگ کا عمل مشرقی لندن کے دو زیر زمین ٹیوب اسٹیشنوں والتھم اسٹو اور اسٹراٹ فورڈ کے علاوہ کینزل گرین میں کی گئیں۔ ملک بھر میں کئے جانے والےآپریشن کے نتیجے میں اب تک لندن سمیت مختلف شہروں سے تقریباً 141غیر قانونی تارکین وطن کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔
ادھر حزب اختلاف کی جماعت ’ لیبر‘ سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے امیگریشن حکام کی ان کاروائیوں پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے اسےمتعصبانہ قرار دیا ہے جس کا نشانہ صرف مخصوص نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بنایا جا رہا ہے تو دوسری جانب پناہ گزین گروپ نے بھی اس طریقہ کارپر تنقید کی ہے جبکہ ،سوشل میڈیا ٹوئٹر پرلکھے جانے والے پیغامات میں لوگوں نے ان کاروائیوں پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
ہفتے کو امیگریشن کے وزیر مارک ہارپر نےبرطانوی روزنامہ ’آبزرور‘ سے ایک انٹرویو میں حکومتی فیصلے کا دفاع کرتے ہو ئے کہا کہ ، غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف ہونے والے آپریشن پر لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں اور ان کے بقول ایسی کارروائیوں کا مقصد نسل پرستی کو ہوا دینا نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ ، لندن میں امیگریشن حکام کی کارروائیاں خفیہ ایجنسی کی اطلاعات پر کی گئی تھیں جس میں غیر قانونی طور پر کام کرنے والوں کی نشاندہی کی گئی تھی اور ان جگہوں پر چھاپے مارنے سے ہمیں بڑی کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے ۔
دوسری جانب لندن کے زیر زمین ٹیوب اسٹیشنوں پر اسپاٹ چیکنگ کی کارروائی کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کے جواب میں انھوں نے کہا کہ لوگوں کو روکنے کے عمل میں ان سے معمول کے سوالات کئے گئے اور اس دوران گرفتار ہونے والے افراد کو بھی ان کے رنگ کی وجہ سے نہیں روکا گیا تھا بلکہ مشتبہ نظر آنے پر انھیں روک کر سوالات کئے گئے ۔
تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ، چھاپے کی کارراوئیاں اگرچہ معمولی نوعیت کی ہوتی ہیں لیکن ایسی کارروائیوں سے دیکھنے والوں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ اگر کوئی بھی برطانیہ میں غیر قانونی طور پر مقیم ہے یا غیر قانونی طور پر کام کر رہا ہے تو اسے گرفتار کیا جاسکتا ہے جبکہ غیر قانونی تارکین وطن کو ملازمت پر رکھنے والوں سے دس ہزار پاؤنڈ جرمانہ وصول کیا جاتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ حکومت غیر قانونی تارکین وطن کی تلاش کا عمل جاری رکھے گی اور مستقبل میں مزید اسی قسم کی کارروائیاں عمل میں لائی جائیں گی۔
حزب اختلاف لیبر پارٹی کی ایک رہنما ڈورین لارنس نے اسپاٹ چیکنگ کے اقدام کے خلاف برطانوی آئی ٹی وی سے ایک انٹرویو میں کہا کہ یقیناً ایسی کارروائیاں کی جانی چاہیئں لیکن ان کارروائیوں کا نشانہ بننے والے زیادہ تر افراد ایک جیسے رنگ رکھنے والے لوگ ہی کیوں ہیں ۔ ’’مجھے یقین ہے کہ برطانیہ میں ہر ملک کے غیر قانونی افراد موجود ہیں لیکن صرف ایک ہی رنگ کے لوگوں سے باز پرس کیوں کی جارہی ہے۔‘‘
لیبر پارٹی کے ایک اور رہنما کرس برائنٹ نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ہوم آفس سے مطالبہ کیا ہے کہ گذشتہ ہفتے غیر قانونی تارکین وطن کی تلاش میں ٹیوب اسٹیشنوں پر کی جانے والی کارروائیوں میں روک کر پوچھ گچھ کرنے والوں اور گرفتار ہونے والےایسے افراد کی لسٹ فراہم کی جائے جن کا تعلق نسلی گروہوں سے ہے کیونکہ یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ ،ہر سیاہ رنگت والے فرد کو ٹرین کے اسٹیشنوں پر روکا گیا اورپوچھ گچھ کی گئی ’’اگر ایسا ہوا ہے تو یہ عمل قطعی ناقابل قبول ہے کیونکہ امیگریشن کے قواعد کے مطابق صرف انہی لوگوں سے روک کر تفتیش کی جاسکتی ہے جن کے بارے میں خفیہ ایجنسی سے معلومات حاصل کی گئی ہوں ۔‘‘
ہیومن رائٹس کمیشن کی جانب سے بھی امیگریشن حکام کی کارروائیوں کے خلاف ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا گیا ہے ۔
ادھر مارک ہارپر کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید کارروائیاں عمل میں لائی جائیں گی جس کے بعد ہوم آفس گرفتار ہونے والے افراد کے اعداد وشمار جاری کرے گا ۔
برطانوی سرحدی ایجنسی کی جانب سے ان دنوں لندن میں ایک متنازع اشتہاری مہم بھی چلائی جارہی ہے جس کے لیے امیگریشن ٹیم کی وین پر ایک اشتہار چسپاں کیا گیا ہے کہ ،’’گھر جاؤ یا گرفتاری کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘