منگل اکیس دسمبر کو 'ہم نیوز' کے میزبان محمد مالک کا ٹاک شو ابتدائی پندرہ منٹ کے بعد روک دیا گیا۔ پروگرام میں پاکستان کے معروف صحافی حامد میر بھی مدعو تھے۔ صحافی اسد علی طور نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ چینل نے پروگرام روک کر خبریں نشر کرنا شروع کر دی تھیں۔ حامد میر کا کہنا ہے کہ پروگرام بند کرنے کی وجہ ان کے کسی میڈیا ادارے کے شو میں شرکت کرنے پر لگی "غیر اعلانیہ پابندی" ہے۔
اس سے قبل پیر 13 دسمبر کوچیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّہ نے “لاپتہ” صحافی اور بلاگر مُدثّر نارو کی جبری گمشدگی سے متعلق مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ “ہمیں نہیں پتہ میڈیا آزاد ہے یا نہیں۔ آزاد میڈیا ہوتا تو لاپتہ افراد کے خاندان کی تصویریں روز اخبار میں ہوتیں۔”
جمعرات 9 دسمبر کو پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ہی ملک میں مبینہ طور پر “لاپتہ” صحافی اور بلاگر مدثّر نارو کے اہل خانہ سے ملاقات کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ مُدثّر نارو کو کس نے اور کیوں جبراً غائب" کیا ہو گا؟
مُدثّر نارو 20 اگست 2018 کو تب “لاپتہ” ہوئے جب وہ اپنی اہلیہ اور چھ ماہ کے بچّے کے ساتھ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقامات کاغان،ناران گئے تھے۔ مئی 2021 میں مُدثّر نارو کی اہلیہ صدف چغتائی کا انتقال ہوگیا تھا۔
حامد میر پر لگی غیر اعلانیہ پابندی کا معاملہ ہو یا مدثر نارو کی گمشدگی کا،پاکستان میں کسی صحافی کے ساتھ پیش آنے والا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔
پاکستان صحافیوں کے لئے ایک خطرناک ملک کیوں؟
ذرائع ابلاغ کے کارکنوں کے حقوق و تحفظ سے متعلق عالمی ادارے کمیٹی ٹُو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے مطابق 1992 سے 2021 کے دوران پاکستان میں 70 صحافی یامیڈیا ورکرز گولیاں لگنے سے یا بم دھماکے کی لپیٹ میں آ کر مارے جا چکے ہیں۔
صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے حقوق و تحفظ کے لئے قائم ایک اور عالمی ادارے رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے بھی ذرائع ابلاغ کی آزادی کی فہرست میں پاکستان کو صحافیوں کے لئے خطرناک ترین ممالک میں شامل کر رکھا ہے۔
سی پی جے نے ذرائع ابلاغ کی آزادی سے متعلق فہرست میں 180 ممالک کی رینکنگ میں پاکستان کا درجہ 145 رکھا ہوا ہے۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ امپیونٹی انڈیکس 2021 کے نقشے میں ان ملکوں کو سرخ رنگ سے نمایاں کیا گیا ہے جہاں صحافیوں کو قتل کرنے والوں کے سزا سے بچ نکلنے کا ریکارڈ خراب ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کا نام بھی ہے۔
صحافیوں کے ایک اور عالمی ادارے انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ کی گزشتہ برس کی رپورٹ میں پاکستان کو صحافیوں کے لئے دنیا کا چوتھا خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے جہاں 138 صحافیوں کا قتل کیا گیا۔ ادارے کا کہنا ہے کہ مئی 2020 سے اپریل 2021 کےدوران صحافیوں کو درپیش خطرات اور حملوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا۔
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کا کہنا ہے کہ پاکستان کا یہ 'متحرّک میڈیا' دراصل 'ریاست' کا ترجیحی ہدف بن گیا ہے۔ ادارے کے مطابق “فوج اور اس کے خفیہ اداروں پر مشتمل اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع ابلاغ پر اس اثر و رسوخ میں جولائی 2018 میں عمران خان کے وزیراعظم بن جانے کے بعد سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا"۔
پاکستان میں ایک طویل فہرست ایسے صحافیوں کی بھی ہے جو جبر کا شکار ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ یعنی خوش قسمتی سے وہ اغوا یا قتل جیسے حملوں سے تو محفوظ رہے، البتّہ ان کا الزام ہے کہ انہیں “معاشی قتل” یا “پیشہ ورانہ ہلاکت” کا سامنا ہے۔
کسی کا الزام ہے کہ انہیں اپنے ٹی وی چینل سے پہلے آف ائیر کیا جاچکا ہے یا پھر ملازمت سے فارغ کردیا گیا ہے،یا اُن کی تحریروں پر پابندی لگائی جاتی رہی ہے۔
لیکن پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ہماری (میڈیا کی) آزادیاں کئی لحاظ سے “فرسٹ ورلڈ” سے بھی زیادہ ہیں۔
بدھ یکم دسمبر 2021 کو اسلام آباد میں پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021 پر دستخط کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ “پاکستان میں ایک طبقہ ایسا ہے جو عالمی سطح پر یہ تاثر بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ یہاں میڈیا آزاد نہیں ہے۔ اگر پاکستان میں میڈیا آزاد نہیں ہے تو دنیا میں کہیں بھی آزاد میڈیا نہیں۔”
چیف جسٹس اطہر من اللّہ کے ریمارکس پر کہ “ہمیں نہیں پتہ میڈیا آزاد ہے یا نہیں” وی او اے نے پاکستان میں آزادئ صحافت سے متعلق تحقیق میں صفِ اوّل میں شمار ہونے والے کئی نامور پاکستانی صحافیوں سے گفتگو کی۔
اس تحقیق کے دوران کئی معروف صحافیوں نے صحافت پر “غیر اعلانیہ پابندیوں” کا دعوی کیا اور “جبری گمشدگیوں” پر آواز اٹھانے کو بھی اس کی ایک وجہ قرار دیا۔ مگر چند دیگر نامور صحافیوں نے مختلف رائے کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پاکستان کا میڈیا آزاد ہے اور ہر طرح کی خبر دیتا ہے اور اس پر ہر قسم کی بات بھی کی جاتی ہے۔
پوری دنیا کو پتہ ہے کہ مجھ پر پابندی کس نے لگوائی: حامد میر
جیو نیوز کے “سابق” اینکر حامد میر پاکستان کے ممتاز و معروف ترین صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ وہ قاتلانہ حملے کا نشانہ بن چکے ہیں اور پیشہ ورانہ پابندیوں کا سامنا کرتے رہے ہیں۔
نومبر 2012 میں حامد میر کی رہائش گاہ پر کھڑی اُن کی گاڑی میں نصب بم برآمد کیا گیا جس کی ذمہ داری پاکستانی طالبان کے ترجمان احسان اللّہ احسان نے قبول کی تھی۔
19 اپریل 2014 کو کراچی میں نامعلوم افراد نے حامد میر پر کئی گولیاں چلائیں اور وہ شدید زخمی ہوئے۔
وی او اے سے گفتگو کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ (جنرل) مشرّف دور میں بھی مجھ پر ٹی وی پر آنے پر پابندی رہی مگر اب نہ تو ٹی وی پر آسکتا ہوں نہ اخبار میں لکھ سکتا ہوں۔
“مئی میں صحافی اسد طور پر تشدد کے خلاف مظاہرے میں شرکت، تقریر اور پھر ٹوئیٹ کرنے پر دباؤ شروع ہوا۔ جیو نیوز انتظامیہ نے مجھ سے رابطہ کیا کہ آپ ٹوئیٹ نہیں کریں۔ ہم پر دباؤ ہے۔ میں نے پوچھا کہ کس کا ؟ تو انہوں نے ملک کے ایک اہم ادارے کا نام لیا۔ اگلے دن میں کسی ٹی وی چینل پر مدعو تھا تو پھر انتظامیہ نے کہا کہ آپ اس شو میں شرکت نہ کریں۔ میں نے کہا کہ آپ کے چینل پر تو نہیں کر رہا کسی اور پلیٹ فارم پر بات کرنے جارہا ہوں مگر مجھ پر دباؤ رہا۔ دو دن بعد مجھے یہ بتا دیا گیا کہ آپ کو کچھ دن کے لئے “آف ائیر” کر رہے ہیں۔ پوری دنیا کو پتہ ہے کہ مجھ پر پابندی کس نے لگوائی۔ اپنے پروگرام “کیپیٹل ٹاک” تک میں بھی مجھے ساتھی صحافی مطیع اللّہ جان کے اغوا پر بات کرنے کی اجازت تک نہیں تھی، انتظامیہ نے کہا کہ اس پر بات نہ کریں, ہم پر دباؤ ہے‘‘۔
پھر میں نے وی او اے کو ہی ایک انٹرویو میں بتایا کہ مطیع اللّہ جان کو جن لوگوں نے اغوا کیا ہے ان کی شکلیں تو سی سی ٹی وی فوٹیج میں واضح ہیں۔ وہ وردی میں ہیں۔ اس پر مجھے فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نے بلوایا۔ وہاں اور بھی کئی صحافی تھے۔ انہوں نے کہا آپ ہمیں بتا دیا کریں۔ پھر اگر ہم کارروائی نہ کریں تو آپ جو چاہیں کیجیے گا۔ تو میں نے کہا کہ پھر آپ 'اُس ادارے' کو روکیں کہ وہ براہ راست (چینل) انتظامیہ کو فون نہ کریں ۔ اس پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آپ (چینل) انتظامیہ کو بتا دیں کہ آج کے بعد 'اُس ادارے' کے کسی افسر کی بات نہ سنیں ، آئی ایس پی آر کی بات سنا کریں۔ میں نے انتظامیہ کو بتا دیا۔ مگر جب اسد طور پر حملے کی ایف آئی آر میں 'اُس ادارے' کا نام آیا تو پھر دباؤ وہیں سے آنے لگا۔ 'اُس ادارے' کے سربراہ نے جیو نیوز کی انتظامیہ سے براہ راست بات چیت شروع کر دی۔ جب میں عالمی سطح پر کہیں بول رہا ہوتا ہوں جیسے کہ “دی ہیگ” (نیدرلینڈ) میں تھا یا عالمی ذرائع ابلاغ پر مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ پر پابندی عمران خان نے لگوائی ہے ؟ تو میں کہتا ہوں کہ نہیں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے لگوائی ہے۔ اب کیا میں جھوٹ بول دوں؟"
"ٹھیک ہے عمران خان چیف ایگزیکٹو ہیں مگر مجھے تو سچ ہی بولنا پڑتا ہے۔ 9 دسمبر کو بھی یورپی یونین کے 7 سفیروں نے مجھے اور ایک ساتھی صحافی کو بلوایا اور پوچھا کہ آپ پر پابندی 'اُنہوں' نے لگوائی ہے تو مجھے بتانا پڑا کہ جی ہاں 'انہوں' نے ہی لگوائی ہے۔ قومی اسمبلی کی مجلسِ قائمہ (اسٹینڈنگ کمیٹی) کے اجلاس میں مجھے بلوایا گیا۔ وہاں وفاقی وزیر فوّاد چوہدری بھی موجود تھے۔ ان سے کمیٹی نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں میڈیا فری ہے یہ حامد میر پر پابندی کس نے لگائی ہے تو فوّاد چوہدری نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ"۔
پاکستانی حکام کا موقف
یاد رہے کہ اسلام آباد میں پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021 پر دستخط کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اس موضوع پر بھی اپنی حکومت کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ “ہم نے صحافیوں کو میڈیا مالکان سے اور طاقتور سرکاری افسروں سے تحفظ دینے کا اقدام اٹھایا ہے کیونکہ سرکاری افسران ایسے بھی ہیں کہ اگر ان کے خلاف کوئی خبر شائع ہوتی ہے تو وہ ناراض ہوتے ہیں"۔
صحافیوں کی جبری گمشدگی کے بارے میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ “جب بھی کسی گمشدگی کا کیس آتا ہے تو یہاں ایک ہی جماعت ایسی ہے جس کی اس پر واضح پالیسی ہے۔ اگر کسی صحافی کے ساتھ اس قسم کی کوئی زیادتی ہوگی تو ایک آزاد کمیشن قائم کیا جائے گا جو 14 دن میں اس کا فیصلہ کرے گا کہ اس کا معاملہ ہے کیا۔ کچھ ہمارے مسائل بھی ہیں۔ امیگریشن وغیرہ کے چکر میں کچھ لوگ خود ادھر ادھر ہو جاتے ہیں۔”
فواد چوہدری کے اس واضح موقف کے باوجود جب اس تحقیق کے دوران نامور صحافیوں کے عائد کردہ الزامات سامنے آئے تو وی او اے نے فواد چوہدری سے رابطہ کرنے کی کئی بار کوشش کی۔ اُنہوں نے جواب تو نہیں دینا چاہا لیکن تحریراً وی او اے کو یہ پیغام ضرور دیا کہ اس سلسلے میں انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
وی او اےنے ڈاکٹر شیریں مزاری سے بھی کئی بار رابطہ کرنے کی مسلسل کوشش کی مگر اپنا موقف دینے یا اپنی حکومت اور ریاست کے اداروں پر صحافیوں کی جانب سے عائد کئے جانے والے الزامات کے دفاع کے لئے یا پھر “چیف ایگزیکٹو” کا موقف براہ راست بیان کرنے سے ڈاکٹر شیریں مزاری اور فواد چوہدری دونوں ہی نے گریز کیا۔
میرے اورعمران خان کے درمیان کوئی مسئلہ نہیں، حامد میر
حامد میر نے وی او اے سے گفتگو میں مزید کہا کہ میرے خلاف “بغاوت” کا مقدمہ قائم کرنے کے لئے 5 سے زیادہ شہروں میں کارروائی کی گئی، درخواستیں دی گئیں مگر ایک عدالت نے کہا کہ حامد میر تو اسد طور پر حملے کے کسی ملزم کا نام ہی نہیں لے رہے، وہ تو کہہ رہے ہیں کہ صحافی پرحملے کے ملزمان کو گرفتار کیا جانا چاہیے۔ تو مقدمہ درج نہیں ہوسکا۔
قومی اسمبلی کی ایک اور مجلسِ قائمہ کے اجلاس میں پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے نگراں سرکاری ادارے پاکستان میڈیا ریگیولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے سربراہ کو بلوا کر اُن سے پوچھا گیا کہ حامد میر پر پابندی کس نے لگوائی تو چئیرمین پیمرا نے بھی کہا کہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ تو پابندی لگوانے والے وہ نامعلوم ہیں جو سب کو معلوم ہیں۔ منتخب حکومت بھی کسی حد تک ذمہ دار ہے مگر انصاف کی بات یہ ہے کہ عمران خان نے فواد چوہدری کی موجودگی میں جیو نیوز کی انتظامیہ کو یہ پیغام دیا کہ ہمارا (میرا اور عمران خان کا) کوئی مسئلہ نہیں۔
جب (جیو نیوز گروپ ہی کے اخبار) “جنگ” میں بھی میرے کالم کی اشاعت پر پابندی لگا دی گئی تو مجھے کہیں نہ کہیں تو صحافت کرنا تھی تو میں نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے معاہدہ کر لیا ہے۔ اب 15 اکتوبر کے بعد سے میں امریکی اخبار سے منسلک ہوں اب جیو نیوز سے میرا کوئی معاہدہ نہیں۔ میرے خلاف اس مہم کے دوران مجھ پر تو توہینِ مذہب کا الزام لگانے کی کوشش بھی کی گئی۔
2010 میں آئی ایس آئی کے سابق افسر خالد خواجہ کے قتل و اغوا کا الزام لگا دیا گیا۔ پھر مجھے اس وقت کے ایک وزیر نے پیغام دیا کہ اگر میں لاپتہ افراد پر بات کرنا بند کردوں تو “سب ٹھیک” ہو جائے گا۔ یہ میں نے سپریم کورٹ کے تین ججز کو بتایا ہوا ہے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔” حامد میر نے کہا۔
'چینل انتظامیہ نے کہہ دیا کہ یا تو پروگرام کر لیں یا ٹویٹ': طلعت حسین
جیو نیوز سے ہی وابستہ رہنے والے طلعت حسین 'آج' ٹی وی کے بھی ڈائریکٹر نیوز رہے ہیں۔ مگر اب آف ائیر ہیں۔
طلعت حسین نے وی او اے کو بتایا کہ مجھے تو انتظامیہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ یا تو پروگرام کرلیں یا ٹوئیٹ۔ حالانکہ ٹوئیٹ تو ذاتی رائے کا اظہار ہے۔
مگر طلعت حسین عمران خان کی حکومت کو بھی صحافیوں کے خلاف ان کارروائیوں اور دباؤ کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
“عمران خان کی حکومت جیسی حکومتیں کم آئی ہیں جس نے اتنے کھلے انداز سے سنسرشپ نافذ کی ہو ، سوشل میڈیا پر صحافیوں کے خلاف جھوٹ بولا ہو ، الزامات لگائے ہوں۔ اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ بھی رہا ہے۔ اب نہیں ہے اتنا مگر پہلے دو سال بہت تھا۔ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع پر بات تو مصیبت ہوجاتی تھی۔ عمران خان جن انتخابات کے ذریعے آئے ہیں، انہیں متنازعہ کہنے سے بھی مسئلہ بن جاتا تھا۔ لفظ اسٹیبلشمنٹ استعمال نہیں ہوسکتا تھا"۔
طلعت حسین کہتے ہیں کہ ہر صحافی کی اپنی ایک “ایڈیٹوریل لائن” ہوتی ہے۔ میری لائن یہ ہے کہ پاکستان میں فوج پر تنقید “عسکری معاملات” کی وجہ سے نہیں ہوتی ۔ تب ہوتی ہے جب وہ اپنے دائرہ کار سے تجاوز کر کے سیاست میں الجھتے ہیں۔ میں دفاعی اخراجات اور جوہری امور کے حق میں ہوں، بھارت اور کشمیر سے متعلق تو “ہم ایک پیج پر ہیں۔ لیکن جب آپ سیاسی معاملات میں الجھیں گے تو سیاسی جوڑ توڑ پر تنقید ہوتی ہے میڈیا پر بھی سوشل میڈیا پر بھی۔ عدالتوں میں بھی دیکھ لیں جسٹس صدیقی نے کیا کہہ دیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیا نہیں کہہ دیا۔ ہم تو سیدھی بات کرتے ہیں کہ انتخابات کو نہ الٹائیں ، سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ نہ کروائیں"
کیا پاکستان میں بس نام کی پریس فریڈم ہے؟ اس سوال کے جواب میں طلعت حسین کہتے ہیں، کہ "تاثر دیا جاتا ہے کہ سب آزاد ہیں۔ جتّھہ بندوں کے ذریعے سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کرتے ہیں۔ میرے خاندان کے خلاف غلیظ مہم چلائی گئی۔ میں ایف آئی اے کے پاس گیا، تو حکام نے بتایا کہ 5 ویب سائیٹس ہیں جن سے یہ ہو رہا ہے مگر تین کو ہم ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے کیوں کہ یہ “بادشاہ لوگ” چلاتے ہیں۔ وہ آپ کو پتہ ہی ہے کہ کون ہیں۔ تو مقدمہ وہیں کا وہیں پڑا رہ گیا۔ تو ایک غیر اعلانیہ پابندی ، "ڈیپ" اور "اسٹرکچرڈ سینسرشپ" ہے۔ صحافیوں کو "سیلف سینسرشپ" کرنی پڑتی ہے۔
طلعت حسین کے بقول، مالکان کے مفادات کا تعلق اشتہارات سے ہے۔
"جس ملک میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خاندان کے ساتھ وہ ہو سکتا ہے ،جو ہو رہا ہے جہاں تین دفعہ کا وزیر اعظم ملک میں واپس نہیں آسکتا، وہاں صحافی کیا توقع کرسکتے ہیں ؟" طلعت حسین نے سوال کیا۔
ان کے بقول، "میری رائے کو آپ میرے خلاف کیوں استعمال کرتے ہیں۔ میں صحافی ہوں، میری رائے بھی ہوگی۔ مگر جو حقائق ہم دے رہے ہیں، کیا وہ درست نہیں ہیں، اُن پر بات کریں۔ مسئلہ یہ ہے کہ رائے کے جواب میں آپ ایک جھوٹی رائے لاسکتے ہیں، حقائق کے جواب میں آپ جھوٹے حقائق نہیں لاسکتے۔ اس لئے انہیں رائے سے مسئلہ نہیں ہوتا حقائق سے ہوتا ہے"۔
طلعت حسین نے انکشاف کیا کہ “وہ” (حکام) بعض اوقات تو دباؤ اور پابندیوں کا شکار صحافیوں کو بتاتے ہیں کہ یہ ہم نے کیا ہے۔ "عینی شاہدین کے سامنے مجھ سے بھی کہا کہ ہم اس کو “ٹھیک” بھی کرسکتے ہیں اگر آپ ہماری بات مان لیں۔ بالکل “خدائی رویّہ” اپنایا جاتا ہے"۔
'میرے خلاف ایک منظم مہم چلائی گئی': عاصمہ شیرازی
ٹی وی میزبان اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ جس طرح ایک “ہائبرڈ رجیم” بنائی گئی، یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ صحافیوں کو ڈرا دیں دھمکا دیں۔ ایک کو عبرت بنا کر باقیوں کو قابو کر لیں۔ ذمہ دار، ظاہر ہے کہ جو طاقتور ہے اور جو اُن کا ہی سیاسی چہرہ ہیں، جیسے موجودہ حکومت ہے اور یہ کوئی نیا سلسلہ نہیں ہے۔
"سوشل میڈیا کی “ٹرول بریگیڈ” ہے، ٹرولنگ بھی ایک منظم مہم کی طرح ہوتی ہے۔ میرے خلاف مہم اس کا ایک حصّہ تھی۔ وفاقی وزرا نے بھی اس میں حصّہ لیا۔ دو دفعہ تو میرے گھر کے اندر لوگ آ دھمکے۔
صحافیوں کی جانب سے سیاسی جماعتوں کی حمایت کے سوال پر عاصمہ شیرازی نے کہا کہ پاکستان کے صحافی جمہوریت اور نظریاتی سرحدوں کی پارٹی ہیں، آئین کے طرفدار ہیں، قانون کی حکمرانی کے حامی ہیں۔ اس کا مطلب کسی سیاسی جماعت کا ساتھ یا کسی کی مخالفت نہیں۔
گزشتہ ساڑھے تین برس میں تو صرف صحافی ہی نہیں، ادیب، لکھاری، دانشور سب نشانہ بنے ہیں۔ ایک میڈیا ہاؤس کے مالک کو سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا۔ مجھے برائب نہیں کیا گیا ، صرف ڈرانے دھمکانے تک ہی محدود رکھا"۔
میڈیا پر 'مثبت رپورٹنگ' کے لئے دباو بڑھانے سے ملک بہتر ہوجائے گا؟: ابصار عالم
ابصار عالم وہ صحافی ہیں جو خود بھی پیمرا کے سربراہ رہے اور جیو نیوز اور آج ٹی وی سے منسلک رہے۔ 20 اپریل 2021 کو اُن پر اسلام آباد جیسے شہر میں اس وقت قاتلانہ حملہ ہوا، جب وہ ایک پارک میں چہل قدمی کررہے تھے۔
وی او اے سے گفتگو میں ابصار عالم نے کہا کہ پاکستان میں صحافیوں کی جان ، ملازمت ، روزگار سب خطرے میں ہے۔
ان کے بقول، "سیاسی جماعتیں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر سب ہی ماضی میں بھی صحافت کو ڈرانے دھمکانے میں ملوّث رہے۔ کراچی میں ڈان کے فوٹو جرنلسٹ پر رینجرز نے جس طرح حملُہ کیا ہے، یہ ریاستی دہشت گردی ہے تاکہ لوگ ڈر جائیں، سیلف سینسر شپ عائد کرلیں اور لوگ کر بھی رہے ہیں۔ چار برس کی “مثبت رپورٹنگ” سے کیا پاکستان کی معیشت بہتر ہوگئی ؟ تو پھر میڈیا پر پابندی سے کیا بہتر ہو جائے گا؟"
"مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی حکمراں اشرافیہ کا اس ملک میں کچھ بھی داؤ پر نہیں ہوتا۔ وہ تو باہر کی شہریت رکھتے ہیں، ریٹائر ہوتے ہی ملک سے چلے جاتے ہیں اربوں روپے بھی لے جاتے ہیں۔ یہ تو وائسرائے کا کردار ہے۔ صحافتی تنظیموں اور ذرائع ابلاغ کا بھی قصور ہے۔ عدلیہ اور صحافی اگر بدعنوان ہوجائیں تو یہ مالی بدعنوانی سے بھی زیادہ خطرناک ہے مگر یہ ہو گیا ہے"۔
ان کے بقول، اس میں ذرائع ابلاغ کے مالکان کا بھی قصور ہے،عامل صحافیوں کا بھی۔ یہ بھی سچ ہے کہ ٹی وی چینل کی ملکیت کا لائسنس سرمایہ کاروں کے لئے باقی کالے دھندے کی انشورنس پالیسی بن گیا ہے۔ اشرافیہ سے تعلق کا ذریعہ ہے۔ صحافت کو جب چاہیں قابو میں کرلیا جاتا ہے"۔
ابصار عالم نے پاکستانی چینلز پر طالبان رہنماؤں (ملّا اختر منصور و دیگر) یا پھر جماعت الدعوہ کا انٹرویو دکھائے جانے پر کہا کہ خبر نہیں روکی جاسکتی ، ہاں ہیرو بنانا صحیح نہیں ہے۔ صحافت پر سیاسی جماعتوں کی طرفداری کے سوال پر ابصار عالم نے کہا صحافت و سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
صحافیوں کو ہدف بناکر معاشرے کو پیغام دیا جاتا ہے کہ بولنا نہیں: مطیع اللّہ جان
اسلام آباد کے صحافی مطیع اللّہ جان کو 21 جولائی 2021 کو اسلام آباد سے اس وقت “نامعلوم افراد” نے زبردستی اغوا کیا جب وہ ایک اسکول کے قریب تھے۔ اس واردات میں انہیں زبردستی لے جانے والے افراد کی چہرے سی سی ٹی وی فوٹیج میں ریکارڈ اور بالکل واضح تھے۔ مگر پولیس سربراہان نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان نے بارے میں کوئی سراغ ملا، نہ نشاندہی ہو سکی۔
مطیع اللّہ جان نے وی او اے سے گفتگو میں کہا کہ “بات صحافیوں کی نہیں پورے معاشرے کی ہے۔ صحافی بہت آسان ہدف ہیں، ان کو تختۂ مشق بنا کر پورے معاشرے کو پیغام دیا جاتا ہے کہ بولنا نہیں ہے"۔
ان کا الزام ہے کہ "پورے سیاسی نظام کی ری انجینئیرنگ کی جاتی رہتی ہے۔ صحافی کی آواز روکنا اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ عام لوگوں کو بتایا جاسکے، ڈرایا دھمکایا جاسکے، زبان بند رکھیں تو اچھا ہے۔ بولنا نہیں ہے، ورنہ دیکھ لو کہ یہاں تو مطیع اللّہ ، ابصار عالم ، اسد طور اور حامد میر کے ساتھ کیا ہوگیا"۔
مطیع اللہ کے بقول، " منتخب حکومتوں کے خلاف ناانصافی اور سازش ہورہی ہوتی ہے تو صحافیوں کی آواز بند کرنا ایسی قوتوں کے لئے ضروری ہوجاتا ہے یہ صرف صحافیوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ جنرل مشرف کے بعد جو بھی نام نہاد سول حکومتیں آئیں، چاہے آصف زرداری کی ہو یا نواز شریف کی یا عمران خان کی ان حکومتوں کی “اوقات” عوامی سطح پر دکھائی جاتی ہے۔
عدلیہ کی “بے بسی” کو بھی جان بوجھ کر عیاں کیا جاتا ہے تاکہ عوام اُمّید میں نہ رہیں۔ یہ ہے وہ ففتھ جنریشن وار جو پاکستان کی اپنی ہی عوام کے خلاف لڑی جا رہی ہے"۔
ان کا کہنا ہے کہ "ہم ماضی سے سبق نہیں سیکھتے، عوام کا گلا گھونٹ دینے سے، بند باندھ دینے سے، ایک دن بند ٹوٹ جاتا ہے۔ نوجوان نسل کی ذہن سازی ہو رہی ہے۔ “قومی مفاد” کا نام نہاد نظریہ پیش کیا جا رہا ہے۔ ہمارے معاشرے کی جینیٹک انجینیرئنگ ہو رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں ، طلبہ انجمنوں پر پابندی اور مذہبی جماعتوں کو فروغ دے کر کیا منظر نامہ بنا دیا گیا ہے یہاں تک کہ اب یہ حال ہے کہ جس جمہوریت کے نتیجے میں عمران خان وزیر اعظم ہیں، اسی جمہوریت کے خلاف بات کرتے ہیں"۔
صحافی مطیع اللّہ جان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صحافت کی صورتحال اس شعر میں بیان کی جاسکتی ہے کہ
“اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے
اب رہائی ملی بھی، تو مر جائیں گے”
ان صحافیوں کے عائد کردہ الزامات کے تناظر میں پاکستان کے صفِ اوّل کے صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ ایک مختلف نقشہ کھنچتے ہیں۔
وی او اے سے گفتگو میں سہیل وڑائچ نے کہا کہ پاکستان میں اب آہستہ آہستہ حکومت پر تنقید کرنے کی پابندی تو ختم ہو رہی ہے مگر اداروں کے بارے میں جو صحافی تنقید کرتے ہیں انہیں اب بھی سائیڈ لائن کر دیا جاتا ہے۔ ان پر گرفت ہوتی ہے۔ تو جبر کے ایک خاص ماحول میں رہنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مشکل کام ہے مگر ہمارا کام ہی مشکل حالات میں کام کرنا ہے۔ اصل میں جو کچھ (آپ کے ہاں) مغرب میں عجیب یا غیر معمولی بات سمجھی جاتی ہے، پاکستان میں اُسے ایک معمول مان لیا گیا ہے عام رویّہ تسلیم کرلیا گیا ہے۔ جبر کو قبول کرلیا گیا ہے کہ یہ ہے اور یہی ہے اور یہی ہوگا۔
اس وقت سلیم شہزاد (مقتول صحافی) جیسا معاملہ نہیں ہے، تو کام پھر بھی آسان لگتا ہے۔ یہ ماحول صحافیوں کو پسند تو نہیں ہے مگر اسی جبر کے ماحول میں کام کرنا ہے اور جدوجہد ہی کی جاسکتی ہے۔ سہیل وڑائچ نے کہا۔
تصویر کا دوسرا رخ
مگر ایسا نہیں ہے کہ تمام صحافی پاکستان میں صحافت کو “غیر اعلانیہ پابندی” کا شکار سمجھتے ہوں۔
وی او اے سے گفتگو میں اے آر وائی نیوز کے میزبان کاشف عباسی نے کہا کہ "پابندیاں کب نہیں تھیں؟ ہم تو کبھی آزاد تھے ہی نہیں۔
کیا 5 برس پہلے کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پابندیاں نہیں تھیں ؟ کچھ چیزوں پر آپ بات نہیں کر سکتے۔ مگر یہ ہمیشہ سے ہو رہا ہے۔ اب یا تو کام چھوڑ کر گھر بیٹھ جائیں یا جتنی آزادی ہی اسی میں کام کریں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ کام بالکل نہیں کر سکتے تو زیادتی کی بات ہے۔ ہمارے حالات مخصوص ہیں مگر 50 سال سے ہیں۔ صحافت پر پابندیاں ہمیشہ سے رہی ہیں، کوئی نئی بات نہیں ہے مگر ٹوئیٹر بھی بھرا پڑا ہے اور ٹی وی پروگرام بھی چل رہے ہیں"۔
بات کہنے کا ڈھنگ آتا ہو، تو کچھ بھی کہنا مشکل نہیں: جاوید چوہدری
ایکسپریس نیوز کے میزبان اور ممتاز صحافی جاوید چوہدری کا کہنا ہے، مجھے صحافت میں 30 سال ہوگئے۔ 14 برس ہوگئے ٹی وی پر ٹاک شو کرتے ہوئے، مجھے تو کبھی کسی نے ایک بار بھی کسی بھی خبر کو دینے یا روکنے کے لئے نہیں کہا۔
وی او اے سے گفتگو کرتے ہوئے جاوید چوہدری نے کہا کہ "ہر ریاست (چاہے وہ امریکہ ہو بھارت) کے کچھ “گرے ایریاز” ہوتے ہیں پاکستان میں بھی ہیں۔ یہاں مذہبی معاملات پر، اسٹیبلشمنٹ پر، عدلیہ پر بات نہیں کی جاتی۔ لیکن یہ پابندی یا سختی ریاست نے تو نہیں لگائی۔ یہ تو میڈیا نے خود پر ہی ایک “سیلف سینسر شپ” عائد کر رکھی ہے۔ کوئی “فئیر فیکٹر (Fear Factor)” ہے۔ مثلاً تحریک لّبیک کا معاملہ ہے، اتنا سب کچھ ہوا، کس نے کیا بات کی؟ یا تحریک طالبان کا مسئلہ ہے اور تھا، کیا بات ہوئی اس پر؟"
جاوید چوہدری کے بقول، "میں تو یہ نہیں مانتا کہ فوج پر بات نہیں ہو سکتی۔ آرمی چیف جنرل باجوہ کی مُدّتِ ملازمت میں توسیع کا معاملہ ہی لے لیں۔ کیا نہیں کہا گیا میڈیا پر ؟ سمری آ رہی ہے, سمری جا رہی ہے، سے لے کر ہر طرح اور ہر قسم کی بات ہوئی۔ یہی جنرل ندیم رضا کے ڈی جی آئی ایس آئی بننے پر ہوا اور جنرل فیض کے کور کمانڈر بننے پر ہوا، کون سی بات ہے جو ان معاملات میں ٹی وی پر نہیں کی گئی ؟، سب کچھ کہا سنا گیا۔ کہاں ہے پابندی کہ ان معاملات پر بات نہیں ہو سکتی؟، حامد میر کے بارے میں تو خود جیو کے لوگوں نے کہا کہ ہم نے “آف ائیر” کیا ہے، خود کیا ہے۔ آرمی چیف کی موجودگی میں کہا"۔
"بات یہ ہے کہ بات کرنے کا ڈھنگ ہوتا ہے۔ اگر بات کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا تو آپ امریکہ برطانیہ میں بھی بات نہیں کر سکتے، جہاں کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ آزادئ اظہار ہے۔ وہاں (امریکہ یا برطانیہ میں) بھی کچھ قومی سلامتی کے معاملات پر بعض باتیں نہیں کی جاسکتیں۔ صحافی کو اپنا کام کرنا آنا چاہئیے۔ اب عدلیہ کا معاملہ لے لیں۔ ثاقب نثار کا معاملہ ہو یا چیف جج رانا شمیم کے بیان حلفی کا، کیا نہیں کہا گیا ؟ کیا نہیں دکھایا یا سنایا گیا ؟ ۔۔۔۔۔۔۔تو آزادی ہے ، بالکل ہے !"
آزادئ صحافت کے پیچھے چھپنے کی بجائے متعلقہ فورم پر معاملہ اٹھائیں: صابر شاکر
اے آر وائی نیوز کے میزبان صابر شاکر نے کہا کہ "پاکستان میں بہت اچھا ماحول ہے کوئی پابندی نہیں، صحافت کے قاعدوں اور ضابطوں کے تحت ہر طرح کی خبر دی جاسکتی ہے اور دی جاتی ہے، لیکن مادر پدر آزادی تو پوری دنیا میں کہیں نہیں ہے"۔
وی او اے سے گفتگو میں صابر شاکر نے کہا کہ جس ریاست میں آپ رہتے ہیں چاہے وہ امریکہ ہو یا برطانیہ یورپ ہو یا مشرقِ وسطیٰ وہاں کا آئین ہوتا ہے ، قانون ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں بھی کچھ ایسے ضابطے ہوں، جو رکاوٹ لگتے ہوں مگر یہ تو نہیں ہوسکتا کہ پیشہ ورانہ اصولوں کی پاسداری نہ کی جائے کہ ہم جو چاہیں وہ خبر ہو اور ہم جیسے چاہیں، اسے دیں تو یہ ممکن نہیں، دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتا۔ الفاظ کا چناؤ درست ہو، تو سخت سے سخت بات بھی قاعدے کے تحت کی جاسکتی ہے۔ اور اگر پھر بھی کہیں کوئی “قدغن” نظر آتی ہے تو ہر ادارے کے خلاف فورم موجود ہے۔ پیمرا کے خلاف بھی عدالت میں جایا جا سکتا ہے۔ تو چیلنج کرنے یا آزادئ صحافت یا عدلیہ کی آزادی کے پیچھے چھپنے کی بجائے متعلقہ فورم پر جائیں بالکل ریلیف ملتا ہے۔ ہمیں اور ہمارے ادارے کو بھی کئی بار نوٹس ملے باز پرس ہوئی مقدمات درج ہوئے ہم تو ہر بار متعلقہ فورم پر گئے اور ریلیف ملا ہمیں"۔
صابر شاکر کے بقول، "اس ملک میں 40 سے زائد چینلز ہیں۔ کتنے چینل کے کتنے اینکرز کو “آف ائیر” کیا گیا ؟
اور اگر کیا بھی تو میڈیا کی انتظامیہ یا مالکان کرتے ہیں تو جس نے “آف ائیر” کیا ہے اُس سے پوچھیں۔ اگر آپ کو بات کہنی آتی ہے تو آپ مشکل سے مشکل بات کہہ سکتے ہیں"۔
پاکستان میں آزاد صحافت کا معاملہ سیاہ اور سفید کے درمیان ہے؟
پاکستان میں صحافت آزاد ہے یا پابند۔ اوپر دی گئی آرا کی روشنی میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہ معاملہ ایسا ہے جس کو صرف سیاہ یا سفید بھی نہیں کہا جاسکتا۔۔۔۔۔ پوری دنیا میں صحافتی آزادی کے مسلمہ حق کو تسلیم کرنے سے کوئی انکار نہیں کرتا۔ لیکن حقیقت میں اس حق پرکتنا عمل ہوتا ہے، اس بات کو پرکھا اور جانچا جا سکتا ہے، اور اوپر دی گئی تحریر میں ہم نے یہی جانچنے کی کوشش کی ہے۔