امریکی ڈاکٹروں نے اسٹیم خلیوں کے ذریعے ایک مفلوج شخص کا کامیاب علاج کیا ہے۔
امریکی ریاست کیلی فورنیا میں واقع یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا نے بتایا ہے کہ ایک جسمانی طور پر مفلوج مریض کا اسٹیم خلیوں کے ذریعے تجرباتی علاج کیا گیا ہے۔
سرجیکل ٹیم کی قیادت کرنے والے ڈاکٹر چارلس لیو جو یو اہس سی یونیورسٹی میں نیورو ریسٹریشن سینٹر میں ڈائریکٹر ہیں، بتایا ہے کہ اسٹیم سیل تھراپی کے تجرباتی علاج میں حصہ لینے والا ایک جسمانی طور پر مفلوج امریکی نوجوان اپنے بازؤں اور ہاتھوں کو استعمال کرنے کے قابل ہوگیا ہے۔
21 سالہ کرسٹوفر بوئسین حال ہی میں ایک کار حادثے کے نتیجے میں ریڑھ کی ہڈی کی شدید چوٹوں کے باعث مفلوج ہوگیا تھا۔
ڈاکٹروں نے اس کے والدین کو خبردار کر دیا تھا کہ کرسٹوفر مستقل طور پر گردن سے نیچے کے دھڑ سے مفلوج ہو سکتا ہے۔ تاہم، انھیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ کرسٹوفر ممکنہ طور پر ایک طبی تحقیق کے لیے کوالیفائی کرسکتا ہے جس میں اس کا علاج کیا جائے گا۔
کرسٹوفر کے والدین نے اولین تجربات میں حصہ لینے پر اتفاق کیا اور یہ شخص ملٹی سینٹر کلینکل ٹرائل کا حصہ بن گیا تھا،جس میں کرسٹوفر کی مسخ ریڑھ کی ہڈی میں براہ راست اسٹیم خلیات کی تجرباتی خوراک کا انجیکشن لگایا گیا۔
ڈاکٹر چارلس لیو کے مطابق ریڈھ کی ہڈی کے زخم جیسا کہ کرسٹوفر کو آئے ہیں عام طور پر اس کا علاج سرجری کے ذریعے کیا جاتا ہے جس میں ریڑھ کی ہڈی کو مستحکم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن، یہ موٹر یا حسی افعال کو بہتر کرنے کے لیے زیادہ کامیاب نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ نئے طریقہ کار کامیاب معلوم ہورہا ہے ہم اپنے تحقیق میں ہم اس طریقہٴ کار کو ٹیسٹ کر رہے ہیں جو کہ اعصابی افعال کو بہتر بناسکتا ہےجس کا مطلب ہے کہ ایک مفلوج جسم بازوؤں اور ہاتھوں کو استعمال کرنے کے قابل بنایا جا سکے گا۔
اور اعصابی افعال کی اس سطح کی بحالی سے نمایاں طور پر ایسے معذور مریضوں کی روزمرہ زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے جو ریڑھ کی ہڈیوں کے زخموں کے ساتھ ہیں۔
رواں برس میں اپریل کے اوائل میں کرسٹوفر کو دس ملین AST-OPC1اسٹیم خلیوں کی خوراک کا انجیکشن دیا گیا تھا۔
یہ اسٹیم خلیات تولیدی عمل کے ضایع ہونے پر جنین سےحاصل کئے گئے جن کو دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں پائے جانے والے خلیات میں تبدیل کیا گیا جو صحت مند حرکات و سکنات اور کام کاج میں مدد کرتے ہیں۔
آپریشن کے دو ہفتے کے بعد کرسٹوفر نے حرکات و سکنات ظاہر کرنا شروع کر دی تھیں اور تین ماہ بعد وہ اپنے ہاتھوں سے کھانا کھانے،موبائل فون استعمال کرنے اور اپنا نام لکھنے کے علاوہ گھر والوں اور دوستوں کے ساتھ گلے ملنے کے قابل ہوگیا ہے۔
تاہم، ڈاکٹر کرسٹوفر کے مستقبل کی پیش رفت کے حوالے سے پیشن گوئی کرنے میں احتیاط برت رہے ہیں۔
سائنس دانوں کے مطابق ان تجربات کے ذریعے ایسے مریضوں کا علاج کیا جاتا سکتا ہے جنھیں ریڑھ کی ہڈی کی شدید چوٹیں آئی ہوں اور وہ معذوری کی زندگی جی رہے ہیں۔ تاہم، یہ ایک متنازعہ علاج ہے۔
ایمبرائنگ اسٹیم خلیوں کثیر المقاصد نوعیت کے خلیے ہیں جو انسانی جسم میں نشو و نما پاسکتے ہیں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اسٹیم خلیوں کے ذریعے مختلف بیماریوں کا علاج ممکن ہوسکے گا اور اسے انسانی اعضاء کے کسی بھی قسم کے خلیے بنانے کے کام میں بھی لایا جاسکتا ہے۔