افغانستان میں پھنسے پاکستان کے شہریوں کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔ حکام نے طورخم کے راستے مزید 520 افراد کے واپس پہنچنے کی تصدیق کی ہے۔
مارچ کے وسط سے سرحدی گزرگاہوں کی بندش کے نتیجے میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد سرحد پار افغانستان میں پھنس گئی تھی۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات اجمل وزیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تین دن قبل 718 افراد افغانستان سے واپس آئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان سے واپس آنے والوں کو سرحد سے ملحقہ قبائلی ضلعے خیبر میں خصوصی قرنطینہ مراکز میں رکھا جا رہا ہے۔
ان کے بقول اسکریننگ، ٹیسٹ اور طبی معائنے کے بعد صحت مند افراد کو گھر جانے کی اجازت دی جاتی ہے جب کہ مشتبہ افراد کو 14 دن کے لیے ان مراکز میں رکھا جاتا ہے۔
اجمل وزیر نے مزید بتایا کہ افغانستان سے واپس آنے والے افراد کے لیے 16 قرنطینہ مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ ان میں سے سات مراکز پاک افغان شاہراہ کے ساتھ ساتھ بنائے گئے ہیں جب کہ باقی دیگر علاقوں میں تعمیر کیے گئے ہیں۔
دوسری جانب ضلع خیبر کے اسسٹنٹ کمشنر شمس الاسلام نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ افغانستان سے واپس آنے والوں میں 950 افراد قرنطینہ مراکز میں موجود ہیں۔ جن میں وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد 93 ہے جب کہ 15 افراد صحت یاب ہو چکے ہیں۔
شمس الاسلام نے بتایا کہ افغانستان میں اب بھی 1500 پاکستانی موجود ہیں۔ ان افراد نے کابل اور جلال آباد کے سفارت خانوں کے ذریعے واپس آنے کے لیے رجوع کیا ہے۔
ادھر مشرق وسطیٰ کی ریاستوں سے بھی پاکستانی باشندوں کی واپسی شروع ہو چکی ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی خصوصی پروازوں کے ذریعے ان افراد کو واپس لایا جا رہا ہے۔
دبئی سے ایک پرواز کے ذریعے 250 افراد پشاور کے باچا خان انٹرنیشنل ایئر پورٹ پہنچے۔
مشیر اطلاعات اجمل وزیر نے کہا کہ ان تمام افراد کو بھی قرنطینہ مراکز منتقل کر دیا گیا ہے۔