ایک دس سالہ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جن لوگوں میں پریشانی اور ڈپریشن ہے، ان کے لیے جگر کی بیماریوں سے مرنےکا خطرہ زیادہ ہو سکتا ہے۔
برطانیہ کی 'ایڈنبرا یونیورسٹی' میں کلینکل فار برین سائنس سینٹر سے وابستہ تحقیق دانوں کے مطابق، یہ پہلی تحقیق ہےجس سے نفسیاتی مسائل اور جگر کی مختلف بیماریوں کےنتیجےمیں ہونے والی اموات کےدرمیان ممکنہ تعلق کی نشاندھی ہوئی ہے۔
یہ بات 'جرنل گیسٹروانیٹرو لوجی 'میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔
ڈاکٹر ٹام رس کی ٹیم نے تحقیق کے لیے 165,000 لوگوں میں نفسیاتی تکالیف سے متعلق ایک سروے پر تفتیش کی، جس کے بعد محققین نے 10 سال تک شرکاء کی صحت کا جائزہ لیا اور اس دوران ہونے والی اموات کی وجوہات کا ریکارڈ تیار کیا۔
نتائج سے وضاحت ہوئی کہ انفرادی طور پر جن شرکاء نے نفسیاتی علامات کے ساتھ زیادہ نمبر حاصل کئے تھے ان میں جگر کی بیماریوں سے مرنے کا امکان ان لوگوں سے زیادہ تھا جنھوں نے پریشانی اور ڈپریشن کے لیے کم نمبر حاصل کئے تھے۔
محققین نے اپنی تحقیق میں سماجی اور اقتصادی عوامل کے علاوہ شراب نوشی، ذیا بیطس، موٹاپے کےحوالے سے بھی اعداد و شمار کو شامل کیا۔ اس کے باوجود، نتائج میں ذہنی دباؤ اور جسمانی صحت کےنظام کےدرمیان واضح تعلق کا اشارہ تھا۔
تحقیق کی قیادت کرنے والے ڈاکٹر ٹام رس نے کہا کہ'یہ مطالعہ دماغ اور جسم کے درمیان اہم روابط کے لیے مزید ثبوت فراہم کرتا ہے'۔
انھوں نے مزید کہا کہ'نفسیاتی دباؤ کےجسمانی صحت پر نقصان دہ اثرات ہیں۔ تاہم، ہم اس تعلق کی براہ راست وجہ اور اثر کی تصدیق کرنے کے قابل نہیں ہیں لیکن یہ تحقیق مستقبل کے مطالعوں کے لیے مزید ثبوت فراہم کرتی ہے'۔
محققین نے کہا ہے کہ ایک پچھلے مطالعے میں بتایا گیا تھا کہ پریشانی اور ذہنی دباؤ سے دل کی بیماریوں کا خطرے بڑھتا ہے۔
سائنسدان نے اس تعلق کی وضاحت میں دل کی بیماریوں کےخطرے کےعوامل مثلا ہائی بلڈپریشر اور موٹاپے کو جگر کی بیماری کی عام شکل یعنی فربہ جگر کی بیماری کے ساتھ منسلک کیا ہے۔
محقق ٹام رس نے کہا 'بالکل اسی طرح ذہنی دباؤ جگر کی بیماریوں سےمرنے کے خطرے کےساتھ بالواسطہ طور پر منسلک کیا جا سکتا ہے'۔