غزہ جنگ پر امریکی یونیورسٹیز میں احتجاج، فلسطینی اور اسرائیل نواز طلبہ کے درمیان جھڑپیں

  • غزہ میں جنگ بندی کے لیے امریکی یونیورسٹیز میں طلبہ کا احتجاج جاری
  • اسرائیل نواز طلبہ نے بھی یونیورسٹیز کے احاطے میں احتجاج شروع کر دیا ہے۔
  • کیلی فورنیا یونیورسٹی لاس اینجلس میں فلسطینی اور اسرائیلی نواز طلبہ کے درمیان جھڑپیں
  • احتجاج کے دوران درجنوں طلبہ کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
  • صدر جو بائیڈن کو ادراک ہے کہ بہت سے امریکی غزہ جنگ سے متعلق اپنے جذبات رکھتے ہیں: جان کربی

غزہ جنگ کے معاملے پر امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے احتجاج میں تیزی آ رہی ہے جب کہ لاس اینجلس کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں فلسطینیوں اور اسرائیل کے حمایتی طلبہ کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔

امریکہ کی مختلف یونیورسٹیز میں احتجاج کرنے والے درجنوں طلبہ کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔

لاس اینجلس یونیورسٹی میں جہاں فلسطین نواز طلبہ کا احتجاجی کیمپ مسلسل پھیل رہا ہے تو وہیں اسرائیل کے حمایتی طلبہ کے کیمپس میں بھی طلبہ کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

اتوار کو طلبہ کے دونوں گروپس کے درمیان اس وقت کشیدگی پیدا ہوئی جب بعض مظاہرین نے دونوں گروپس کو الگ رکھنے کے لیے قائم حصار کو توڑ دیا۔

یونیورسٹی کی وائس چانسلر برائے اسٹرٹیجک کمیونی کیشن میری اوساکو کے مطابق دونوں دھڑوں کے ارکان نے ایک دوسرے کو ڈنڈے اور گھونسے مارنے کے علاوہ دھکے بھی دیے۔ دونوں دھڑوں کے طلبہ نے ایک دوسرے کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی۔ اس دوران لاٹھی بردار کیمپس پولیس نے دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کیا۔

اوساکو نے ایک بیان میں کہا کہ "یو سی ایل اے کی پرامن احتجاج کی جگہ ہونے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ لہذٰا ہم اس تشدد کے بارے میں دل شکستہ ہیں۔"

یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق جھڑپ کے دوران لاس اینجلس پولیس نے کوئی مداخلت نہیں کی۔ تاہم کیمپس پولیس نے ہی صورتِ حال کو کنٹرول کیا۔

یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق احتجاج میں یونیورسٹی کے باہر کے کچھ لوگ بھی شریک ہیں حالاں کہ انتظامیہ نے طلبہ کے دو گروپس کو پرامن احتجاج کی اجازت دی تھی۔

امریکہ میں سوشل جسٹس کی تنظیم ہیریئنٹ ٹبمین سینٹر فار جسٹس نے طلبہ کے احتجاج کے حق کی حمایت کی تھی۔ دوسری جانب یہودی طلبہ سے اظہارِ یکجہتی اور یہودیوں کے خلاف نفرت انگیزی کے خلاف اسرائیل، امریکن کونسل سرگرم ہے۔

ملک گیر مظاہرے

گزشتہ دو ہفتوں کے دوران فلسطینی نواز مظاہرے امریکہ کی مختلف یونیورسٹیز اور کالجز میں پھیل گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں شدت چند روز قبل کولمبیا یونیورسٹی سے 100 طلبہ کی گرفتاری کے بعد آئی تھی۔ اس کے بعد کیلی فورنیا، ٹیکساس، اٹلانٹا اور بوسٹن کے تعلیمی اداروں سے درجنوں طلبہ کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

کولمبیا یونیورسٹی کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ یہ مظاہرے یونیورسٹی قوانین کے برخلاف ہیں اور اس سے نہ صرف تعلیمی سرگرمیوں میں خلل پڑ رہا ہے بلکہ اس سے یہود مخالف جذبات کو بڑھاوا مل رہا ہے۔

مطاہرین غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں جب کہ طلبہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ اسرائیل کی فوجی امداد فوری طور پر بند کرے۔

طلبہ تنظیموں کا ماننا ہے کہ یونیورسٹیز میں یہودی طلبہ کو ہراساں کرنے کے اکا دُکا واقعات ہوئے ہیں، تاہم اس میں باہر کے لوگ ملوث ہیں جو طلبہ کی اس تحریک کو ہائی جیک کرنا چاہتے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن ان مظاہروں سے آگاہ ہیں۔

اتوار کو نشریاتی ادارے 'اے بی سی نیوز' کو دیے گئے انٹرویو میں جان کربی کا کہنا تھا کہ صدر کو ادراک ہے کہ بہت سے امریکی غزہ جنگ کے حوالے سے اپنے جذبات رکھتے ہیں۔

جان کربی کا کہنا تھا کہ "صدر ان جذبات کا احترام کرتے ہیں اور ہم بھی پرامن احتجاج کے حق کا احترام کرتے ہیں۔ لوگوں کو اپنا نقطۂ نظر دوسروں تک پہنچانے کی کوئی ممانعت نہیں ہے، لیکن یہ پرامن ہونا چاہیے۔"

جان کربی کا یہ بھی کہنا تھا کہ صدر یہود مخالف جذبات اور نفرت انگیزی کی بھی مذمت کرتے ہیں۔