ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے نفسیاتی مریضوں کے لیے جو جیل میں اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر باہر نکلتے ہیں، اس بات کا تعین مشکل ہے کہ وہ مستقبل میں دوبارہ مجرمانہ حرکات میں ملوث ہوں گے یا نہیں؟
ایک نئی تحقیق کے مطابق ماہرین ِ نفسیات کے پاس موجود نفسیاتی طور پر پریشان افراد میں تشدد کے رجحان میں مبتلا ہونے کا جائزہ لینے کے طریقوں میں سقم موجود ہیں اور محض 46٪ مریضوں میں تشدد کے رجحان کا درست اندازہ لگایا جاتا ہے۔
گویا یہ طے کرنا کہ ایک نفسیاتی مریض کسی کو قتل کر سکتا ہے، کسی کا دوبارہ ریپ کر سکتا ہے یا پھر کسی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر سکتا ہے، مشکل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جج صاحبان کو ماہرین ِ نفسیات کی جانب سے جیل سے نکلنے والے قیدیوں میں تشدد کے رجحان کے ٹیسٹوں کو زیادہ قابل ِ اعتبار نہیں سمجھنا چاہیئے۔
لندن کی کوئین میری یونیورسٹی کے شعبہ ِ نفسیات سے منسلک جیریمی کوئیڈ اس تحقیق کی سربراہی کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ، ’اگر آپ یہ نتائج کسی ایسے شخص پر لاگو کرتے ہیں جو دماغی مریض ہو یا کسی نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہو تو یہ ٹیسٹ کسی کام کے نہیں۔ یہ ٹیسٹ ایسے مریضوں میں تشدد کے رجحان کے حوالے سے کوئی اندازہ نہیں لگا سکتے۔‘
یریمی کوئیڈ کا مزید کہنا تھا کہ، ’لوگوں کی حفاظت کے لیے ایسے مریضوں میں تشدد کی جانب بڑھتا رجحان ختم کرنے کی بہت ضرورت ہے اور اگر ماہرین ِ نفسیات ایسے مریضوں کے بارے میں درست تشخیص کرنے میں ناکام رہے تو پھر انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔‘
اس تحقیق کے لیے 1,396 مرد قیدیوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا جن سے اُن کی رہائی سے تقریباً چھ ماہ سے ایک سال قبل انٹرویوز کیے گئے۔ ان تمام مردوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے یا پھر تشدد کرنے کی وجہ سے پابند ِ سلاسل کیا گیا تھا۔
یہ ذہنی مریض قیدی مختلف نفسیاتی عارضوں جیسا کہ شیزوفرینیا، شخصیت کے انتشار، ڈیپریشن ، نشہ اور شراب نوشی کی لت میں مبتلا تھے۔
ان افراد کی جیل سے رہائی کے بعد ان میں جرائم کی شرح کا جب تجزیہ کیا گیا تو یہ امر سامنے آیا کہ نفسیات دانوں کی جانب سے جیل سے رہائی پانے والے افراد میں تشدد کی روش اپنانے کی شرح 50٪ تھی۔