رپورٹر ڈائری: 'ہمارا گاؤں ڈوب گیا، کیا آپ مجھے دو کلو آٹا دلا سکتے ہیں؟'

پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع میر پور خاص اور اس کے اطراف میں ہونے والی سیلاب سے تباہ کاریوں کے بعد ہماری اگلی منزل ضلع نوشہرو فیروز تھی۔ہم نے سفر کا آغاز صبح ساڑھے چھ بجے کیا، دورانِ سفر مجھے اپنے موبائل پر ایک ٹیکسٹ میسیج موصول ہوا جس میں درج تھا کہ نیشنل ہائی وے این فائیو، سندھ، کنڈیارو، مورو، سکرنڈ اور مٹیاری کے قریبی مقامات میں سیلاب ہے۔ لہذا کسی بھی قسم کے سفر سے گریز کرنے کی اپیل کی جاتی ہے۔یوں ہم نے مرکزی شاہراہ کے بجائے بائی پاس کے راستوں سے گزرنے کا رسک لیا۔

ہمارا ارادہ تھا کہ کہیں رک کر ناشتہ کیا جائے اور اس کے بعد پڈعیدن پہنچ کر سارا دن کام کیا جائے۔ لیکن ناشتہ نہ ملنا ایک ایسا مرحلہ بن گیا جس نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ حالات کہیں بھی ٹھیک نہیں۔

شاہراہ پر موجود تقریباً تمام بڑے ہوٹل یا تو بند تھے یاجو کھلے ہوئے تھے ان میں کھانے کو کچھ میسر نہیں تھا۔ صبح سے نکلے دوپہر بارہ بجے ہمیں ایک ہوٹل سے چائے ملی جو ہم نے سفر کے دوران رکھے بسکٹس کے ساتھ جلدی جلدی حلق میں انڈیلی۔

دورانِ سفر جن شاہراہوں سے گزر ہوا وہ راستے تیز بارشوں کے سبب خراب ہوچکے تھے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں اور حد ِنگاہ پانی ہی پانی دکھائی دے رہا تھا۔ نواب شاہ بارشوں سے شدید متاثر تھا کئی جگہوں پر ریل کی پٹریاں کئی کئی فٹ کھڑے پانی کے باعث دکھائی نہیں دے رہی تھیں اور ان پر سے مال گاڑیوں اور مسافر ٹرینوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری تھا۔

پڈعیدن پہنچنے پر زیرِ آب گلیوں اور ان میں بہتے کچرے سے اٹھنے والے تعفن نے شہر کا نقشہ مزید بگاڑ رکھا تھا۔ ایک گنجان آبادی سے گزرتے ہوئے کھانے کی مہک آئی جہاں ایک موٹر سائیکل رکشے پر چار دیگیں رکھی جارہی تھیں۔

ہم پڈعیدن کے سرکاری ہائی اسکول پہنچے جہاں ہمارے پاس سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کی موجودگی کی خبر تھی۔ ہمارے پہنچتے ہی وہ موٹر سائیکل رکشہ جسے ہم نے راستے میں دیکھا تھا اسکول میں داخل ہوا کھانا دیکھتے ہی بچے بڑے تھیلیاں اور خالی برتن لے کر ٹوٹ پڑے۔

دو نوجوانوں نے چند ہی لمحوں میں وہ چار دیگیں خالی کیں اور نکل گئے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ پڈعیدن کے بازار میں کاروبار کرنے والے روزانہ اپنی جیب سے ان متاثرین کو آلو والے چاول بناکر بھیج رہے ہیں۔ یہ ایک وقت کا کھانا ان خاندانوں کے لیے اس وقت کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

'وہ بچہ اس گاؤں کا مستقبل تھا جسے ہم بچا نہ سکے'

اس سرکاری اسکول کا میدان بارش کے پانی سے بھرا ہوا ہے۔ کلاس روم میں لگے بلیک بورڈ پر چاک سے درج رول نمبرز کی سیریز بتا رہی تھی کہ یہ نویں یا دسویں جماعت کے پرچوں کا امتحانی مرکز بنا ہوگا۔ لیکن اس وقت یہ سیلاب متاثرین کے لیے عارضی پناہ گاہ ہے جہاں روشنی اور پنکھوں کی موجودگی سرے سے نہیں تھی۔ مچھروں کے کاٹنے سے جسم پر دانے نکلے آدھے کپڑے پہنے بچے یا تو چارپائیوں پر نڈھال پڑے تھے یا پھر امداد میں آنے والے پکے چاول مٹھی بھر بھر کر کھارہے تھے۔

ستر سالہ بزرگ خاتون نے ہمیں دیکھتے ہی ہاتھ جوڑ دیے اور بار بار کہتی رہیں کہ اس عمر میں حوصلہ نہیں کہ دربدر پھروں۔ نہ ہڈیوں میں جان نہ اب اتنی برداشت ہے خدارا ہماری مدد کے لیے آواز اٹھاؤ ہم کب تک یونہی بے یا رو مدد گار پڑے رہیں گے۔

اس اسکول اور علاقے کے دورے پر معلوم ہوا کہ وائس آف امریکہ سے پہلے کوئی اور نیوز ٹیم یہاں نہیں پہنچی تھی۔ ہمیں دیکھتے ہی ہر کوئی کہتا تھا کہ ہماری طرف چلیں وہاں بہت تباہی ہے۔پڈعیدن سے تین کلومیٹر دور ایک گاؤں سے آئے عبید اللہ کے سات بچوں میں ایک بچی کی طبیعت شدید خراب تھی دوا اور خوراک نہ ہونے کے سبب بچی بخار میں نڈھال پڑی تھی۔


عبید اللہ کے مطابق جب شدید بارش ہوئی تو اسی دوران ہم اپنے گھر والوں کے ساتھ یہاں آگئے۔ ہمیں یہاں کسی نے ٹھہرایا نہیں ہم نے خود اس اسکول میں پناہ لی حکومت اگر کچھ دے نہیں سکتی تو ہم پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگادے کیونکہ ہم بہت مشکل میں ہیں۔

اسی اسکول میں شہری آبادی سے متاثر ہونے والے کئی خاندانوں نے بھی پناہ لے رکھی ہے۔ ان ہی میں ایک خاتون آمنہ ہیں جن کے ہاتھ میں ایک تھیلی میں استھما انہیلر اور کچھ دوائیں تھی۔

آمنہ کے بقول "میری بیٹی دمے کی مریضہ ہے جب یہاں بارشیں ہورہی تھیں اور ہمارے گھر کی ایک دیوار ٹوٹ گئی تو ہم فوراً باہر نکل آئے۔ میری بیٹی کو اس وقت بھی دمے کا اٹیک ہوا تھا۔ بس ایک ایک جوڑا ٹھایا اور یہ دوائیں اٹھائیں اور رات سیلاب والے علاقے سے دور ایک مسجد میں جا کر بیٹھ گئے۔ ہمارے ساتھ مزید بیس پچیس عورتیں اور بچے تھے مرد مسجد کے صحن میں بیٹھے رہے۔ اس اسکول میں میرا بیٹا پڑھتا ہے اس نے آکر بتایا کہ اماں وہاں اور لوگ بھی آ رہے ہیں ہم بھی وہیں چلتے ہیں تو ہم یہاں آکر بیٹھ گئے ہیں۔"

Your browser doesn’t support HTML5

نوشہرہ میں سیلاب؛ لوگوں کو زبردستی گھروں سے نکالنے والی خاتون کون ہیں؟


حمیداں اس مشکل وقت میں بینظیر انکم سپورٹ کارڈ سے ملنے والی امداد کو اپنا واحد سہارا سمجھتی ہیں لیکن ان کا کارڈ گزشتہ آٹھ ماہ سے بند ہے۔ حمیداں کی طرح مزید خواتین نے بھی اپنے کارڈ دکھا کر بتایا کہ ان کے کارڈ بلاک ہیں اگر یہ اس وقت چل رہے ہوتے تو اس سے ملنے والے پیسوں سے ان کا کچھ گزارہ ممکن ہوجاتا۔ ٹوٹے گھر،زیر آب علاقے اور ممکنہ سیلابوں کے خوف اور اندیشوں نے ان خواتین کو افسردہ کر رکھا ہے۔

پاکستان میں ہونے والی بارشوں میں سب سے زیادہ ریکارڈ بارشیں پڈعیدن میں ہوئی ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اب تک 1757 ملی میٹر سے زائد بارش اس علاقے میں ریکارڈ کی جاچکی ہے۔

اسکول سے نکل کر ہم نے پڈعیدن شہر کا دورہ شروع کیا ایسے رہائشی علاقے جہاں پکے مکانا ت تھے وہ بھی دیواریں، چھتیں گرنے سے متاثر دکھائی دیے کچھ علاقے مکمل طور پر خالی تھے۔ نواب شاہ کی جانب واپسی کے سفر پر رپورٹنگ کے دوران رکے تو دور سے پیدل چلتے ہوئے ایک بچہ جس کی عمر کوئی تیرہ چودہ برس ہوگی وہ آکر رک گیا۔

چند منٹ کے بعد اس نے نظریں نیچی کر کے دھیمی آواز میں کہا کہ مجھے کچھ بات کرنی ہے اگر آپ ناراض نہ ہو ں۔ میں سمجھی کہ وہ کیمرے پر کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن اس نے نفی میں سر ہلایا اور کانپتی آواز میں کہا کہ "اگر برا نہ مانیں تو مجھے دو کلو آٹا دلادیں۔ ہمارا گاؤں ڈوب گیا ہے ہمارے گھر والوں کے پاس کچھ کھانے کو نہیں ہے۔" یہ بتاتے ہوئے اس کا سر مزید جھک چکا تھا۔

اس کی درخواست بتا رہی تھی کہ وہ بچہ مانگنے کا عادی نہیں تھا لیکن مجبوری نے اسے یہاں کھڑا کردیا تھا۔ چند سو روپے جب اس کے ہاتھ پر رکھے تو اس نے کہا کہ پیسے نہیں آٹا چاہیے ہم نہیں جانتے تھے کہ کہاں سے آٹا خرید کر اسے دیا جاسکتا تھا اس لیے ہم نے اسے کہا کہ وہ جہاں سے بھی خریدنا چاہے خرید لے۔ پیسے لے کر وہ بھاری قدموں سے واپسی کے راستے پر روانہ ہو گیا۔


اس سے قبل بھی کئی علاقوں میں عورتیں اور بچے دور سے ہماری گاڑی کو دیکھ کر یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید کوئی سیاسی رہنما یا مدد کرنے والا ادارہ ان کی امداد کے لیے پہنچا ہے لیکن کیمرا اور مائیک دیکھ کر جہاں وہ افسردہ ہوئے وہیں ان کی جانب سے سنائی جانے والی بے بسی کی کہانیوں نے نہ جانے کتنی بار دل کو توڑ کر رکھ دیا۔

"رات جب بارش آتی ہے تو بچے ڈر کر مجھ سے لپٹ جاتے ہیں کہ ابو بارش تیز ہوگئی میں کہتا ہوں کہ بیٹا اللہ کی رحمت ہے یا وہ ہم سے ناراض ہیں ہم کیا کرسکتے ہیں ہم نے یہ گھر 15, 20 برس لگا کر بنائے تھے اب ان گھروں اور گاؤ ں کو دیکھ کر رونا آرہا ہے۔"ـ منصور یہ بتاتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔

حاکم علی کے مطابق جب آیا تو میں نے اپنے خاندان والوں کو دور ایک سڑک پر منتقل کردیا جب اگلے روز واپس آیا تو میری گائے اور چار بکریاں مری پڑی تھیں۔ میں ان کی بے بسی اور کھلی آنکھوں کو دیکھ کر رو پڑا۔ کیونکہ جیسے مجھے اپنی اولاد پیاری تھی یہ بھی مجھے عزیز تھے۔ لیکن اس سیلاب کے وقت مجھے اپنے بچوں اور مویشیوں میں سے کسی ایک کو چننا تھا۔ بچے بچ گئے پر شاید یہ میری راہ تکتے تکتے دم توڑ گئے۔

سفر کے دوران میں تلاش کرتی رہی کہ کوئی ایک گاؤں ایسا نظر آجائے جو اب بھی آباد ہو جہاں اب بھی لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے ہوں لیکن ڈھونڈنے سے بھی مجھے کوئی ایسی جگہ دکھائی نہیں دی۔ کئی گاو ں جو صفحہ یستی سے مٹ چکے تھے وہاں پر کھڑا کئی کئی فٹ پانی اب ٹھہرا ہوا پرسکون دکھائی دے رہا تھا۔

لیکن جب یہ ریلہ یہاں پہنچا تھا تو سینکڑوں خاندانوں کی زندگی میں ایسی ہلچل مچا کے آگے بڑھا جو شاید ہی انہیں اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا کرسکے۔ گاؤں میں رہنے والے مرد ہوں یا عورتیں بہت ہمت والے ہوتے ہیں، کڑی دھوپ، ٹھٹھرتی سردیاں، قحط سالی یہ سب ان کے حوصلوں کو نہیں توڑتی لیکن ان سیلابو ں نے ان کی ہمت کو ایسے توڑا جیسے کوئی ریلہ بند توڑ کر آگے نکل جاتا ہے۔

بے رحم بارشوں اور سیلابی ریلہ سب بہا لے گیا لیکن اس مشکل وقت میں بھی وہ مقامی لوگ جن کے گھر، مال سلامت ہیں وہ اپنی حیثیت کے مطابق کھانا پکا کر موٹرسائیکلوں پر پیکٹس رکھ کر یا چنگچی رکشے پر دیگیں رکھ کر بھوکے پیٹ بھرنے کی کوششوں میں لگے ہیں۔ جو یہ بتارہا ہے کہ بھلے سندھ میں بسنے والوں کا سیلاب سب بہا لے گیا ہو لیکن انسانیت اب بھی باقی ہے جس نے کئی سانسوں کو ٹوٹنے سے بچایا ہوا ہے۔


شہر لوٹتے وقت کیمرے میں فوٹیجز بے شمار اور میرے پاس ان گنت کہانیاں تھیں لیکن رات کی تاریکی میں، میں صرف یہ سوچ رہی تھی کہ چار دیواری میں رہنے والی اپنے چہروں کو ڈھانپ کر رکھنے والی یہ عورتیں کیسے کھلے آسمان تلے اپنی راتیں گزار رہی ہیں۔ بچوں کی فرمائشوں کو پورا کرنے والا باپ کیسے بے بسی سے اپنے بیمار بچوں کو تڑپتا ہوا دیکھ رہا ہے کیوں کہ اب اس کی جیب خالی ہے۔

جو بچے دن رات کھیلتے کودتے تھکتے نہیں اب آنکھوں میں ویرانی لیے کیسے چارپائیوں پر لیٹے آسمانوں کو تک رہے ہیں۔ تباہی تو ہوچکی لیکن اب مدد کب شروع ہوگی؟ مدد شروع بھی ہوجائے تو گھرکیسے بنیں گے؟ فصلیں پھر سے کیسے کھڑی ہوں گی؟ زندگی پھر سے کب مسکرائے گی؟ یہ وہ سوالات تھے جو راستہ بھر میرے ذہن کو الجھائے ہوئے تھے اور جواب تھا کہ مل نہیں پا رہا تھا۔