ستار کاکڑ
بلوچستان میں جمعے کی الصباح فرنٹیر کروپس (ایف سی) نے ضلع قلات کے علاقے میں ایک کارروائی کے دوران مستونگ خودکش دھماکے کے ایک سہولت کار کو ہلاک کر دیا۔
عہدے داروں نے بتایا ہے کہ یہ کارروائی خفیہ اطلاعات پر کی گئی جس میں بتایا گیا تھا کہ داعش کا ایک کارندہ جس کی شناخت ہدایت اللہ کے نام سے کئی گئی ہے ضلع قلات کے ایک گاؤں دارنجو کے ایک گھر میں چھپا ہوا ہے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے سوشل میڈیا کے ذریعے ذرائع ابلاغ سے شیئر کئے گئے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ خفیہ ذرائع کی مصدقہ اطلاع پر جمعے کے روز سیکیورٹی فورسز نے ضلع قلات میں سرچ آپریشن کیا گیا جس میں داعش بلوچستان کا امیر ہدایت اللہ عرف مفتی اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مارا گیا ۔
بیان میں مزید بتایا گیا ہے کہ ہدایت اللہ نے مستونگ واقعہ کے خودکش حملہ آور کو روانہ کیا تھا۔
دریں اثناءضلع مستونگ کے علاقے درین گڑھ میں ایک سیاسی پارٹی کے جلسے کے دوران ہونے والے خودکش حملے میں زخمیوں میں سے مزید افراد نے دم توڑ دیا جس سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 151 ہو گئی۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے جلسے کے دوران ہونے والے خودکش حملے میں پارٹی کے حلقہ پی بی 35سے اُمیدوار نوابزادہ سراج رئیسانی سمیت ڈیڑھ سو سے زائد افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہو گئے تھے جو اب بھی مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں ۔
اُدھر بلوچستان کے سرحد ی شہر چمن میں سیکیورٹی فورسز کی گاڑی پر بم حملے میں چار افراد زخمی ہو گئے جن میں سے ایک کی حالت نازک بتائی گئی ہے ۔
چمن پولیس تھانے کے ڈپٹی انسپکٹر عبد الغفور کے مطابق سیکیورٹی فورسز کی ایک گاڑی چمن بازار کے مال روڈ سے گزر رہی تھی۔ اسی اثنا میں سڑک کے کنارے کھڑی ایک مو ٹر سائیکل میں نصب کئے گئے بارود ی مواد میں ریموٹ کنٹرول سے دھماکہ کیا گیا۔ دھماکے میں گاڑی میں سوار تمام اہل کار محفوظ رہے تاہم ایک بارہ سالہ بچے سمیت چار راہ گیر زخمی ہو گئے جنہیں فوری طور پر چمن کے مقامی سرکاری اسپتال میں منتقل کر دیا گیا۔ ڈاکٹروں نے ایک زخمی کی حالت نازک بتائی ہے ۔
دھماکے کے بعد سیکیورٹی فورسز کے اہل کاروں نے حفاظتی اقدام کے طور ہوائی فائرنگ کی جس سے کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔ دھماکے بعد پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے اعلیٰ افسران موقع پر پہنچ گئے اور عینی شاہدین سے واقعہ کے بارے معلومات حاصل کیں اور شواہد جمع کئے ۔
ابھی تک دھماکے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی ۔ بلوچستان کے اس سرحد ی شہر میں اس سے پہلے بھی سیکیورٹی فورسز اور پولیس کے اعلیٰ افسران پر ریموٹ کنٹرول کے ساتھ حملے ہو چکے ہیں۔
گزشتہ سال 17 جولائی کو پولیس کے ایک افسر ساجد خان مومند کو ایک خودکش حملے میں ہلاک کردیا گیا تھا جبکہ فرنٹیر کور بلوچستان کے اہل کاروں پر بھی کئی بار حملے کئے گئے ہیں جن میں متعدد اہل کار ر زخمی ہ و چکے ہی۔
اس طرح کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری کالعدم مذہبی شدت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔