18 اکتوبر سے’جوائینٹ کمپری ہنسیو پلان آف ایکشن‘ نامی ایران جوہری معاہدے کے تمام فریقین معاہدے کی شقوں پر عملدرآمد شروع کر دیں گے۔ اس دن کو ’اڈاپشن ڈے‘ یعنی نفاذ کا دن قرار دیا گیا ہے۔
جولائی میں طے پانے والے جوہری معاہدے کی ایک شق میں کہا گیا تھا کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی توثیق کے 90 دن بعد اس معاہدے کا نفاذ شروع ہوگا۔
کونسل نے 20 جولائی کو معاہدے کی توثیق کی جس میں طرفین کے لیے اس پر عملدرآمد شروع کرنے کے لیے 18 اکتوبر یعنی اتوار کی حتمی تاریخ رکھی گئی۔
معاہدے میں ایران کے لیے واضح رہنمائی موجود ہے کہ اسے کیا اقدامات کرنے ہیں جس کے بعد اس پر عائد عالمی پابندیاں اٹھائی جائیں گی۔
ان اقدامات میں یورینیم کو افژودہ کرنے والے ہزاروں سنٹری فیوجز کو ہٹانا شامل ہے۔ اسے یورینیم افژودہ کرنے کی اپنی صلاحیت بھی محدود کرنی ہو گی، اراک میں واقع بھاری پانی کے ری ایکٹر میں اہم تبدیلیاں کرنا ہوں گی اور عالمی ادارہ برائے جوہری توانائی ’آئی اے ای اے‘ کے معائنہ کاروں کو جوہری تنصیبات تک رسائی دینا ہو گی جو اس بات کی نگرانی کریں گے کہ آیا ایران معاہدے کی پابندی کر رہا ہے یا نہیں۔
اگر آئی اے ای اے اس بات کی تصدیق کر دے کہ ایران جوہری معاہدے کی شرائط کی تعمیل کر رہا ہے تو اس کے بعد عالمی طاقتیں جوہری پروگرام سے متعلق ایران پر عائد عالمی پابندیاں ہٹانے کا عمل شروع کریں گی۔
معاہدے پر عملدرآمد شروع کرنے سے قبل ایران نے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کا تجربہ کیا جس میں جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت ہو سکتی ہے۔
اگرچہ یہ تجربہ معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا مگر ایسے تجربات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے منافی ہیں۔
معاہدے پر عملدرآمد کے نتیجے میں ایران پر سے عالمی پابندیاں اٹھنے کے بعد ایران کی اقتصادی صورتحال بہتر ہونا شروع ہو جائے گی۔