عالمی ادارہ صحت نے مختلف ادویات کے خلاف قواتِ مدافعت کے حامل نودریافت شدہ جرثومے کے انسانی صحت پہ ممکنہ اثرات کو جانچنے کیلیے کی جانے والی تحقیق میں بھارت کے ساتھ تعاون کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بھارتی میڈیا میں جمعرات کے روز آنے والی خبروں کے مطابق 'ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن' کے ایک ذمہ دار ناتا منابدے کا کہنا ہے کہ نئی دہلی کے پانی میں پائے جانے والے اس جرثومے کے انسانی صحت کیلیے نقصان دہ ہونے کا فیصلہ صرف تحقیق سے ہی کیا جانا چاہیے۔
واضح رہے کہ مذکورہ جرثومہ کا انکشاف برطانوی طبی جریدے "دی لانسٹ" کے حالیہ شمارے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں کیا گیا تھا۔ تحقیق کے برطانوی مصنفین کے مطابق "این ڈی ایم-1" نامی اس جرثومہ کی بھارتی دارالحکومت میں عوامی مقامات پہ نصب نلکوں سے فراہم کیے جانے والے پینے کے پانی اور تالابوں میں بڑی مقدار میں موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔
برطانوی سائنسدانوں کی جانب سے کی گئی تحقیق میں کہا گیا تھا کہ عام ادویات کے مقابلے میں زیادہ قوتِ مدافعت کے حامل اس جرثومے کے صرف نئی دہلی ہی نہیں بلکہ دیگر بھارتی شہروں تک بھی تیزی سے پھیلنے کے خدشات موجود ہیں۔
بھارتی وزارتِ صحت نے ابتدائی طور پر مذکورہ برطانوی تحقیق کو غیر اہم اور درکار شواہد سے محروم قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔ تاہم رپورٹ مسترد کیے جانے کے باوجود حکام کی جانب سے دارالحکومت کے عوام میں پانی صاف کرنے والی کلورین کی گولیاں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ جراثیم کے ممکنہ مضر اثرات سے بچا جا سکے۔
تحقیق کے مطابق مذکورہ جرثومہ میں پائی جانے والی ایک 'جِین' جرثومہ کی ہیئت میں بنیادی تبدیلی کا باعث بن کر اس میں 'کارباپینمز' نامی انتہائی ہائی اینٹی بایوٹک ادویات سمیت تقریباً ہر قسم کے علاج کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا کردیتی ہے۔