آسٹریلیا کے سائنس دان دنیا کی سب سے طاقت ور دوربین نصب کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جس سے حاصل ہونے والی تصاویر خلا میں موجود ناسا کی دوربین 'ہبل' سے تین گنا زیادہ روشن اور واضح ہوں گی۔ یہ دوربین اٹلی میں نصب کی جائے گی۔
دوربین کی تنصیب کے لیے آسڑیلیا کی نیشنل یونیورسٹی نے ایک کنسورشیم قائم کر دیا ہے۔ دوربین کا نام ماوس رکھا گیا ہے جو انگریزی حروف ایم، اے، وی، آئی، ایس کا مخفف ہے۔ یعنی Multi-conjugate-adaptive-optics Assisted Visible Imager and Spectrograph
اتنا بڑا نام اس وجہ سے رکھا گیا ہے کیونکہ اس میں انتہائی جدید اور پیچیدہ آلات لگائے جائیں گے جن میں سے کئی ایک اپنی نوعیت کے لحاظ سے منفرد ہوں گے اور ان کا استعمال پہلی بار کیا جائے گا۔
دنیا کی طاقت ور ترین دوربین لگانے کامقصد یہ ہے کہ ستاروں کی زیادہ واضح، شفاف اور روشن تصاویر حاصل کر کے یہ کھوج لگایا جائے کہ تقریباً 13 ارب سال پہلے یہ کائنات کس طرح وجود میں آئی تھی۔
اس وقت ہم طاقت ور دوربینوں سے طویل فاصلوں پر واقع ستاروں کی جو تصاویر حاصل کرتے ہیں وہ مدھم اور غیر واضح ہوتی ہیں جس کی وجہ سے سائنس دانوں کو کسی ٹھوس نتیجے تک پہنچنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آسڑیلیا کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس دوربین کی مدد سے کائنات کی تشکیل کے ابتدائی ادوار میں جھانکنے کا موقع ملے گا اور یہ جاننے کی راہ ہموار ہو جائے گی کہ وہ کیا عوامل تھے جنہوں نے کائنات کی تشکیل میں مدد دی۔
زمین کا کرہ ہوائی اپنی آلودگی اور کثافتوں کی وجہ سے ستاروں کے مطالعے میں ایک رکاوٹ ہے۔ ان کثافتوں کے باعث ستاروں کی روشنی رک رک کر زمین تک پہنچتی ہے۔ یہی وجہ سے کہ رات کو جب ہم کھلے آسمان پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ستارے ہمیں ٹمٹماتے اور جھلملاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
ستاروں کی واضح اور روشن تصویریں حاصل کرنے کے لیے امریکہ کے سائنسی ادارے ناسا نے 1990 میں ہبل نامی ایک دوربین خلا میں بھیجی تھی، جو زمین کے مدار میں مسلسل گردش کرتی رہتی ہے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ کرہ ہوائی سے باہر نکل کر ستاروں کی بہتر تصاویر حاصل کی جائیں۔
ہبل نے کائنات کے مطالعے میں سائنس دانوں کی بہت مدد کی ہے، لیکن اب یہ ٹیکنالوجی پرانی ہو چکی ہے اور وہ بہت دور واقع ستاروں کی زیادہ شفاف تصویریں حاصل نہیں کر سکتی۔
کائنات کا کھوج لگانے کے لیے سائنس دان روشنی کو ایک بنیاد کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ روشنی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ 86 ہزار میل کا فاصلہ طے کرتی ہے۔ سورج کی روشنی زمین تک 8 منٹ اور 20 سیکنڈ میں پہنچتی ہے۔ بعض ستارے اتنے فاصلے پر واقع ہیں کہ ان کی روشنی زمین تک پہنچنے میں اربوں سال لگ جاتے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کچھ ستارے اتنے زیادہ دور ہیں کہ ان کی روشنی اب تک زمین پر نہیں پہنچی اور وہ راستے میں ہی ہے۔ یہی وہ ستارے ہیں جو کائنات کی ابتدا سمجھنے میں انسان کی مدد کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ان کی جو روشنی یا تصویر زمین تک پہنچے گی اس کا تعلق اس زمانے سے ہو گا جب کائنات اور وہ ستارے اور سیارے وجود میں آ رہے تھے۔
سڈنی کی میکواری یونیورسٹی کے ایک سائنس دان رچرڈ مک ڈرمائنڈ کہتے ہیں کہ نئی دوربین ہمیں کائنات کو زیادہ وضاحت سے دیکھنے میں مدد دے گی۔ روشن تصویریں ہمیں کائنات کے وہ گوشے دکھائیں گی جو اس سے پہلے ہماری نظروں سے اوجھل تھے۔ جس سے ہم بہتر نتائج اخذ کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
نئی طاقت ور دوربین چلی میں واقع یورپ کے فلکیات کے ادارے کی جنوبی رسدگاہ کے احاطے میں نصب کی جائے گی۔ اس رسدگاہ کا انتظام جرمنی کی ایک تنظیم چلاتی ہے۔ دوربین کی تنصب پر سات سال کا عرصہ لگے گا اور اس پر چار کروڑ 40 لاکھ ڈالر خرچ آئے گا۔