پاکستان کی عدالت عظمٰی نے حال ہی میں پارلیمان سے منظور کی گئی اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواست کی ابتدائی سماعت کے بعد اٹارنی جنرل اور صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اُن سے جواب طلب کیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت ملک میں فوجی عدالتوں کا قیام آئین کے منافی ہے۔
اس درخواست کی ابتدائی سماعت بدھ کو چیف جسٹس ناصر الملک کی قیادت میں تین رکنی بینچ نے کی۔
درخواست گزار کی طرف سے معروف قانون دان حامد خان نے دلائل دیے جس میں اُن کا کہنا تھا کہ پارلیمان ایسی کسی بھی ترمیم کی منظوری نہیں دے سکتی جو ملک کے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہو۔
حامد خان کا موقف تھا کہ اکیسویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل پر پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں بحث کے لیے مناسب وقت نہیں دیا گیا جب کہ درخواست گزار کے وکیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کے قیام سے ملک کے عدالتی نظام پر اثر پڑے گا۔
عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے حامد خان کے دلائل سننے کے بعد اٹارنی جنرل اور چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اُن سے اس بارے میں جواب طلب کیا ہے۔
مقدمے کی سماعت 12 فروری تک ملتوی کر دی گئی۔
اُدھر ملک میں وکلاء کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل نے اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف 29 جنوری کو یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا۔
وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتیں صرف دو سال کے لیے قائم کی جا رہی ہیں اور اُن میں صرف دہشت گردی میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات سماعت کے لیے بھیجے جائیں گے۔
حکومت کا موقف ہے کہ فوجی عدالتوں میں ملزمان کو قانون کے مطابق صفائی کا مکمل موقع دیا جائے گا۔
16 دسمبر کو پشاور میں ایک اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے میں 134 بچوں سمیت 150 افراد کی ہلاکت کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان میں سزائے موت پانے والے قیدیوں کی سزا پر عمل درآمد پر عائد پابندی ختم کر دی تھی۔ جس کے بعد سے اب تک 20 مجرموں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔
جب کہ دہشت گردی میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات نمٹنانے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے وزیراعظم نواز شریف کی زیر قیادت ملک کی تمام پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں کے ایک اجلاس میں اکیسویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل کو پارلیمان سے منظور کروانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
جس کے بعد پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے متفقہ طور پر اکیسویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل کی منظوری دی تھی۔ تاہم ملک کی ایک بڑی سیاسی و مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اس بارے میں تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا تھا۔
فوج کے مطابق ملک بھر میں ابتدائی مرحلے میں نو فوجی عدالتیں قائم کی جا رہی ہیں جن میں سے صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں تین، تین جب کہ صوبہ سندھ میں دو اور صوبہ بلوچستان میں ایک فوجی عدالت قائم کی جائے گی۔
وزیراعظم نواز شریف کہہ چکے ہیں پاکستان کو غیر معمولی حالات کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے جب کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ ان خصوصی عدالتوں کا قیام فوج کی خواہش نہیں بلکہ غیر معمولی حالات کا تقاضا ہے۔