عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ کے سامنے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے مالی اثاثوں کی تحقیقاتی رپورٹ پر بدھ کو تیسرے روز بھی سماعت جاری رہی جب کہ وزیراعظم سے مستعفی ہونے کے مطالبات میں آنے والی شدت میں وکلا برادری نے بھی اپنا حصہ ڈالتے ہوئے بدھ کو ملک گیر ہڑتال کی۔
وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے بینچ کو بتایا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے وزیراعظم سے ان کے اثاثوں سے متعلق کوئی سوال نہیں کیا اور اگر ان (ٹیم) کے پاس کچھ تھا تو وہ استفسار کرتے۔
وکیل کے بقول نواز شریف کے اثاثے وہی ہیں جو انھوں نے ظاہر کیے ہیں۔
اس پر بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم نے کہا تھا کہ وہ تمام اثاثوں کے مالی ذرائع (منی ٹریل) فراہم کریں گے لیکن انھوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ اثاثے کب خریدے گئے اور رقوم کہاں سے آئیں۔
بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ لندن کی جائیداد کے علاوہ سب کچھ واضح ہے۔
اس پر خواجہ حارث نے بینچ کو بتایا کہ وزیراعظم لندن فلیٹس کے مالک نہیں ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ سوال اب بھی موجود ہے کہ رقوم دبئی، قطر اور سعودی عرب سے لندن کیسے پہنچیں۔ ان کے بقول اگر اس مرکزی سوال کا جواب مل جائے تو یہ معاملہ حل ہو جاتا ہے۔
وزیراعظم کے وکیل کا کہنا تھا کہ شریف خاندان کے کاروباری معاملات نواز شریف کے مرحوم والد میاں شریف ہی دیکھتے تھے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے اس پر ریمارکس دیے کہ وزیراعظم کو یہ پتا تھا جب وہ قومی اسمبلی میں یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ وہ لندن فلیٹس کی منی ٹریل فراہم کریں گے۔
بینچ میں شامل تیسرے جج جسٹس عظمت شیخ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ المیہ یہ ہے کہ ایسی کوئی دستاویز نہیں ہے کہ جس سے ثابت ہو سکے کہ لندن کی جائیداد کا حقیقی مالک کون ہے۔
بعد ازاں خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کیے تو وفاقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کے وکیل طارق حسن نے اپنے دلائل شروع کیے۔
انھوں نے بھی جے آئی ٹی پر اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرنے کا اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل کو بلا وجہ معاملے میں "گھسیٹنے" کی کوشش کی۔
اس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ عدالت نے جے آئی ٹی کو ہر طرح کا ریکارڈ حاصل کرنے کا اختیار دیا گیا تھا اور تمام اداروں کو ان سے تعاون کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
ان کے دلائل ابھی جاری تھے کہ سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی گئی۔
ادھر حزب مخالف کی طرف سے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کے مطالبات میں اب وکلا برادری بھی شامل ہو گئی ہے اور ملک کی بڑی وکلا نمائندہ تنظیموں نے بدھ کو ہڑتال کی۔
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین احسن بھون نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس ہڑتال کا ایک مقصد حکومتی عہدیداران کی طرف سے سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ جے آئی ٹی سے متعلق روا رکھے جانے والے رویے کی مذمت اور عدالت عظمی کے بطور ریاستی ادارے کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا تھا۔
وزیراعظم نوازشریف مستعفی ہونے کے مطالبات اور امکانات کو مسترد کر چکے ہیں۔