پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثر کے قتل پر سزائے موت پانے والے ممتاز قادری کی طرف سے اپنی سزا کے خلاف دائر کردہ نظر ثانی کی اپیل کو سپریم کورٹ نے ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
عدالت کا موقف تھا کہ اپنے دلائل میں ممتاز قادری کے وکیل میاں نذیر اختر یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ کی طرف سے سنائے گئے فیصلے میں کوئی سقم تھا۔
عدالت کی طرف سے کہا گیا کہ مقدمے کی سماعت کے دوران یہ ثابت نہیں کیا گیا کہ سلمان تاثیر نے توہین رسالت کی تھی اور نہ ہی ان کے خلاف پولیس کو کوئی درخواست دی گئی تھی لہٰذا ان کا قتل بلاجواز تھا۔
عدالت نے دلائل کی سماعت کے لیے لارجر بینچ بنانے کی درخواست بھی مسترد کر دی۔
پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر نے 2010 میں ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے ایک کیس میں سزا سنائے جانے کے بعد، اس بارے میں موجودہ قوانین میں ترمیم کا مطالبہ کیا تھا۔ جس کے بعد جنوری 2011 میں ان کے ایک محافظ ممتاز قادری نے اسی بات پر انہیں قتل کر دیا تھا۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی چیئر پرسن زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح کیا ہے کہ توہین مذہب کے مسئلے پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔
’’ان کے قتل کے بعد جتنی آوازیں اٹھ رہی تھیں ترمیم کی وہ خاموش ہو گئیں کیونکہ ممتاز قادری کا جس طرح سے لوگوں نے خیر مقدم کیا جن میں ہمارے وکلا بھی شامل تھے تو اس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ توہین مذہب کے قانون پر تنقید کرنا توہین مذہب کے برابر ہے۔ تو لوگوں میں اس واقعے کے بعد جو خوف پیدا ہوا تھا کم از کم سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس نکتے کی وضاحت ہو گئی ہے۔‘‘
سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ توہیں مذہب کے قوانین انسانوں نے بنائے ہیں اور ان میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر لوگ توہین مذہب کے مرتکب افراد کو خود ہی سزائیں دینا شروع کر دیں تو اس سے معاشرے میں انتشار پھیل جائے گا۔ لیکن واضح رہے اس معاملے پر بحث پاکستان میں ایک حساس معاملہ رہا ہے۔
پاکستان کے ایوان بالا یعنی ’سینیٹ‘ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے گزشتہ ماہ اپنے ایک اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی حمایت کی تھی اور وزارت برائے قانون، انصاف و انسانی حقوق کو ہدایت کی تھی کہ وہ توہین مذہب کے قوانین میں ترامیم کا مسودہ تیار کرے جن سے اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی ان قوانین کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال نہ کر سکے۔
ممتاز قادری کو راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے 2011 میں تعزیرات پاکستان کی دفع 302 اور انسداد دہشت گردی دفع سات کے تحت قتل کے الزام دو بار موت اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
سزا کے بعد ممتاز قادری کے وکلا نے انسداد دہشت گردی کے فیصلے کے خلاف دو درخواستیں جمع کرائی تھیں۔ ایک میں سزائے موت کو کالعدم قرار دینے کی اپیل کی گئی تھی جبکہ دوسری درخواست میں انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت دی گئی سزا کو خارج کرنے کا کہا گیا تھا۔
مارج 2015 میں اپنے فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے تعزیرات پاکستان کے تحت سزائے موت کو برقرار رکھا تھا مگر انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت دی گئی سز اکو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
اس سال اکتوبر 2015 میں سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ممتاز قادری کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ممتاز قادری کی دو بار سزائے موت کو بحال کر دیا تھا۔