سپریم کورٹ نے توہینِ عدالت کیس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما نہال ہاشمی کا جواب مسترد کرتے ہوئے ان پر فردِ جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نہال ہاشمی پر 26 مارچ کو فردِ جرم عائد کی جائے گی۔
نہال ہاشمی کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت پیر کو چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
دورانِ سماعت نہال ہاشمی نے مؤقف اختیار کیا کہ میں نے غریب اور مظلوم قیدیوں کی آواز اٹھائی تھی، میں عدلیہ کے لیے جیل گیا، مظلوموں کی آواز اٹھانا اگر گناہ ہے تو ٹھیک ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نہال ہاشمی کے تحریری جواب سے مطمئن نہیں۔ آپ کہتے ہیں تو ایک بار پھر پروجیکٹر پر کلپ کو دیکھ لیتے ہیں۔ آپ کے الفاظ کی تشریح کا جائزہ لیں گے۔ اب ہم مثالی فیصلے کریں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے نہال ہاشمی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ملک کی اعلٰی ترین عدالت کو بدنام کر رہے ہیں۔
نہال ہاشمی نے کہا کہ اپنے بچوں کے لیے نہیں عدالت کے لیے جیل گیا۔ کارروائی آگے بڑھانی ہے تو کسی دوسرے بینچ کو مقدمہ سننا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے وکیل کی ہدایت پر غیر مشروط معافی مانگی تھی۔ معافی کو سزا کی بنیاد بنا دیا گیا۔ اپنی گفتگو میں کسی جج کا نام نہیں لیا تھا۔ مجھے فیئرٹرائل کا موقع نہیں دیا جا رہا۔
لیگی رہنما نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کا مرتے دم تک احترام کرتا رہوں گا۔ غلطی اور کوتاہی ہر شخص سے ہوسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے بھی خواتین کے اسکرٹس پر بات کی تھی۔ آپ کو غلطی کا فائدہ ہوسکتا ہے تو مجھے کیوں نہیں؟ مجھے بھی صفائی کا موقع ملنا چاہیے۔ کیا مجھے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ کو خاموشی سے سن رہے ہیں۔ اپنی حد میں رہیں۔ عدالت آپ کے کنڈکٹ کا بھی جائزہ لے گی۔ آپ کے جواب کو مسترد کرتے ہیں۔ عدالت آپ کے جواب سے مطمئن نہیں۔ انشاء اللہ اب فیصلوں سے مثالیں قائم کریں گے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے گزشتہ سماعت پر نہال ہاشمی کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کی وکالت کا لائسنس معطل کردیا تھا۔
نہال ہاشمی کو توہینِ عدالت کیس میں ایک ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی جو انہوں نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں پوری کی جب کہ اس کیس میں انہیں سینیٹر شپ سے ہاتھ بھی دھونا پڑے تھے۔
سزا پوری ہونے کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نہال ہاشمی ایک بار پھر عدلیہ پر برس پڑے تھے جس کی پاداش میں انہیں ایک بار پھر عدالت کے سامنے پیش ہونا پڑ رہا ہے۔