امریکی محکمۂ دفاع نے پاکستان کی 30 کروڑ ڈالر کی امداد روکنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ محکمہ دفاع کا کہنا ہے کہ امداد کی منسوخی کی وجہ پاکستان کی جانب سے شدت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن اقدام کا نہ کیا جانا ہے۔ یہ فیصلہ اس وسیع حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا اعلان رواں سال کے آغاز پر صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے کیا تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پاکستان افغان شدت پسندوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرتا ہے جو سرحد پار کر کے افغانستان میں حملے کرتے ہیں۔ پاکستان اس الزام کی سختی سے تردید کرتا ہے
اس بارے میں ہمارے ساتھی قمر عباس جعفری نے دو ممتاز تجزیہ کاروں ورلڈ بنک کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار شاہد جاوید برکی اور پاکستان میں لمس کے ڈاکٹر رسول بخش رئیس سے گفتگو کی۔
شاہد جاوید برکی کا کہنا تھا کہ صورت حال خاصی پیچیدہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت امریکہ کو پاکستان کی اس سے زیادہ ضرورت ہے جتنی پاکستان کو امریکہ کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امداد کی منسوخی کے فیصلے کے اعلان کا وقت بڑا معنی خیز ہے کیونکہ چند ہی روز میں امریکی وزیر خارجہ پاکستان اور بھارت کے دورے پر جانے والے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس دوسرے آپشنز بھی ہیں۔
ڈاکٹر رسول بخش ریئس کا کہنا تھا کہ کہ یہ ایک مایوس کن فیصلہ ہے جو غلط وقت پر کیا گیا ہے اور بقول ان کے اس کا مقصد پاکستان کو یہ پیغام دینا ہے آنے والے دنوں میں ہونے والے مذاکرات سخت ہو ں گے۔
بعد میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ امداد نہیں تھی بلکہ کوالیشن سپورٹ فنڈ کی رقم تھی جو پاکستان خرچ کرچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ پاکستان کے دورے پر آ رہے ہیں اور ان موضوعات پر اُن سے بات ہو گی۔
مکمل انٹرویو سننے کیلئے اس لنک پر کلک کریں:
Your browser doesn’t support HTML5