یورپی ملک سوئیڈن میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کو نذرِ آتش کرنے کا واقعہ ایک بار پھر پیش آیا ہے جب کہ اس کے خلاف احتجاج کے دوران ہنگامہ آرائی پر پولیس نے 12 افراد کو حراست میں لیا ہے جن میں دو لوگوں کو باقاعدہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پولیس نے گرفتار افراد کے حوالے سے شبہ ظاہر کیا ہے کہ وہ ہنگامہ آرائی میں ملوث تھے۔ زیرِ حراست افراد پر امنِ عامہ میں خلل ڈالنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اتوار کو احتجاج جنوبی شہر مالمو کے ایک چوراہے پر کیا گیا۔ مالمو شہر میں تارکینِ وطن کی ایک بڑی آبادی مقیم ہے۔
خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق اس مقام پر لگ بھگ 200 افراد موجود تھے۔
واضح رہے کہ عراق سے تعلق رکھنے والے ایک پناہ گزین سلوان مومیکا نے سوشل میڈیا پر مالمو شہر کے اس چوراہے پر قرآن نذرِ آتش کرنے کا اعلان کیا تھا۔
سلوان مومیکا اس سے قبل بھی اسی طرح کے اقدامات کر چکے ہیں۔ ان کے ہاتھوں قرآن کی بے حرمتی کے واقعات نے مسلم ممالک میں غم و غصے کو جنم دیا تھا۔
متعدد مسلم اکثریتی ممالک میں سوئیڈن کے سفرا کو طلب کرکے مقدس کتاب کی بے حرمتی کے خلاف احتجاج کیا گیا۔
رپورٹس کے مطابق اتوار کو مالمو شہر میں اس چوراہے پر موجود کچھ افراد نے سلوان مومیکا پر پتھراؤ کیا۔
SEE ALSO: عراق: مشتعل افراد کا سوئیڈن کے سفارت خانے پر دھاوا، عمارت کو آگ لگا دیسوشل میڈیا پر موجود ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک شخص نے مومیکا کو اس مقام سے لے جانے والی پولیس کی گاڑی کو بھی روکنے کی کوشش کی۔
سوئیڈن کی حکومت نے قرآن کی بے حرمتی کی مذمت کی ہے لیکن ساتھ ہی ملکی آئین کے مطابق آزادی رائے اور اجتماع کے حقوق کے تحفظ کا دفاع بھی کیا ہے۔
اگست کے وسط میں سوئیڈن کے خفیہ اداروں نے دہشت گردی کے انتباہ کی سطح کو بڑھا کر پانچ میں سے چار کر دیا تھا ۔
خفیہ اداروں کے مطابق سوئیڈن کو اب دہشت گرد حملوں کے لیے جائز ہدف سمجھے جانے سے آگے ایک ترجیحی ہدف کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
سوئیڈن نے گزشتہ ماہ اگست کے اوائل میں سرحدی کنٹرول بڑھانے کا بھی فیصلہ کیا تھا۔
SEE ALSO: ڈنمارک کا مقدس کتابوں کی بے حرمتی روکنے کا قانونی راستہ تلاش کرنے پر غوردوسری جانب ایک اور یورپی اور سوئیڈن کے پڑوسی ملک ڈنمارک عندیہ دے چکا ہے کہ وہ قرآن جلانے پر پابندی لگانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
سوئیڈن نے بھی مخصوص حالات میں تحریروں کو جلانے سے متعلق مظاہروں کو روکنے کے قانونی ذرائع تلاش کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
اس رپورٹ میں شامل مواد خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لیا گیا ہے۔