انسانی حقوق کی تنظیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ شام کی سیکیورٹی افواج نے پرتشدد کاروائیوں میں جمعرات کو کم از کم 10 حکومت مخالف مظاہرین کو ہلاک کردیا ہے۔
تشدد کے تازہ واقعات حزبِ مخالف کے خلاف جاری کریک ڈاوٴن بند کرنے سے متعلق عرب لیگ کے اس منصوبے کا اعلان ہونے کے ایک روز بعد پیش آئے ہیں جس سے شامی حکومت نے بھی اتفاق کیا تھا۔
سیاسی کارکنان نے دعویٰ کیا ہے کہ جمعرات کو ہونے والی ہلاکتیں احتجاجی تحریک کا مرکز رہنے والے وسطی شہر حمص میں ہوئی ہیں جہاں شامی افواج نے بابا امر نامی علاقے کو بھاری گولہ باری کا نشانہ بنایا۔
ہلاکتوں کے دعویٰ کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
سیاسی کارکنان کے مطابق حکومت مخالف مظاہرین نے جمعرات کو ملک کے کئی شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالیں۔
حزبِ مخالف کی 'لوکل کو آرڈینیشن کمیٹیز' کا کہنا ہے کہ سرکاری افواج نے صدر بشار الاسد کے خلاف درعا، الیپو، کفروما اور دمشق کے شہروں میں احتجاج کرنے والے طلبہ کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا اور کئی مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔
جمعرات کو ہونے والی ہلاکتوں اور فوجی کاروائیوں نے عرب لیگ کی جانب سے پیش کردہ منصوبے پر عمل درآمد کے حوالے سے خدشات پیدا کردیے ہیں۔
دریں اثنا شام کی حزبِ مخالف کی جماعتوں کےاتحاد 'سیرین نیشنل کونسل' کے رہنمائوں نے جمعرات کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں عرب لیگ کے سربراہ سے ملاقات کی۔
عرب لیگ کی جانب سے تجویز کردہ منصوبے میں شامی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ دو ہفتوں کے اندر حزبِ مخالف سے مذاکرات شروع کرے۔
تاہم کونسل کے ایک رکن سمیر النشر نے بعد ازاں صحافیوں کو بتایا کہ عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں شامی حکومت کے ساتھ ممکنہ بات چیت کے معاملے پر بات نہیں کی گئی۔
اس کے برعکس، ان کے بقول کونسل نے مطالبہ کیا ہے کہ صدر بشار الاسد اقتدار سے دستبردار ہوں اور پھر اس کے بعد اتحاد کو مذاکرات کی پیش کش کریں تاکہ ایک آمرانہ حکومت سے جمہوری طرزِ حکومت کی جانب پیش رفت ہوسکے۔
دریں اثنا فرانس میں مقیم ایک شامی رہنما برہان غلیون نے کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ شامی حکومت منصوبے کے مندرجات کا احترام نہیں کرے گی۔
جمعرات کو اپنے ایک بیان میں غلیون نے کہا کہ شام کی حکومت نے عرب لیگ کا منصوبہ صرف اس لیے قبول کیا ہے کہ کہیں وہ عرب دنیا اور عالمی برادری میں تنہائی کا شکار نہ ہوجائے۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ شام میں بشار الاسد حکومت کے خلاف آٹھ ماہ سے جاری احتجاجی تحریک کے دوران ہلاک ہونےو الے افراد کی تعداد تین ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔
شام کی حکومت بیشتر ہلاکتوں کی ذمہ داری مسلح گروہوں اور "دہشت گردوں" پر ڈالتی آئی ہے۔