انسانی حقوق کی تنظیموں او رکارکنوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر صورت حال بہتر نہ ہوئی تو شام ایک نیا صومالیہ یا افغانستان بن سکتا ہے۔
شام کے انسانی حقوق کے کارکنوں کاکہناہے کہ بدھ کو ملک بھر میں تشدد کے واقعات میں کم ازکم 53 افراد ہلاک ہوگئے ہیں اور شام کے لیے اقوام متحدہ کے امن مشن کے سربراہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کی ٹیم جنگ سے متاثرہ ملک میں رکے رہنے کے اپنے عزم پر قائم ہے۔
شام میں انسانی حقوق کی صورت حال پر نظر رکھنے والی برطانیہ میں قائم تنظیم کے سربراہ رامی عبدالرحمن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہیں خدشہ ہے کہ شام ایک نیا صومالیہ یا نیا افغانستان ثابت ہوسکتا ہے۔
اس تنظیم کے شام میں باغیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ملک کے سیکیورٹی عہدے داروں کے ساتھ رابطے ہیں۔ عبدالرحمن کا کہناہے کہ بدھ کی جھڑپوں اور تشدد کے واقعات میں شام کے 28 فوجی، ایک باغی فوجی اور 24 عام شہری اور باغی ہلاک ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ ہلاکتیں شمالی علاقے حلب ، جنوبی شہر درعا، مشرقی شہر دیرالزور اور شمال مغربی صوبے لاذقیہ میں ہوئیں۔ انہوں نے بتایا کہ حما، ادلب اور دمشق صوبوں سے بھی ہلاکتوں کی اطلاعات ملی ہیں۔
تشدد کے یہ تازہ ترین واقعات ایک ایسے وقت میں پیش آئے ہیں جب بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی نے کہاہے کہ حمص شہر میں سے زخمیوں اور متاثرہ مقامات پر پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے کی تیاری کررہی ہے۔
آئی سی آرسی نے بدھ کے روز کہا کہ دونوں فریقوں نے کمیٹی کی درخواست پر بدھ کو عارضی طورپر فائربندی پر رضامندی ظاہر کی ہے تاکہ متاثرین کو نکالنے اور جان بچانے والی ادویات پہنچانے کا کام کیا جا سکے۔