ہفتہ کو چند منٹ کے وقفوں سے یکے بعد دیگرے ہونے والے دو بم دھماکوں کا ہدف دارا نامی علاقے میں ایک فوجی کیمپ تھا۔
شام کی ایک غیر سرکاری تنظیم نے کہا ہے کہ ملک کے جنوب میں ہفتہ کو دو خودکش کار بم دھماکوں میں کم از کم 20 فوجی ہلاک ہو گئے۔
برطانیہ میں قائم ’شامی آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ نے بتایا ہے کہ چند منٹ کے وقفوں سے یکے بعد دیگرے ہونے والے دو بم دھماکوں کا ہدف دارا نامی علاقے میں ایک فوجی کیمپ تھا۔
تنظیم کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ دھماکوں میں متعدد افراد زخمی ہوئے اور ہلاکتوں میں اضافے کا امکان ہے۔
ایک ایسے وقت جب ملک میں تشدد کا سلسلہ جاری ہے اور مزید فوجی افسران منحرف ہو کر ترکی فرار ہو گئے ہیں، شام کے صدر بشارالاسد کا اصرار ہے کہ اُنھیں اب بھی شامی عوام اور فوج کی حمایت حاصل ہے۔
شامی حکومت کی افواج جمعہ کو جب باغیوں کے ٹھکانوں پر زبردست بمباری کر رہی تھیں، ترکی کے سرکاری میڈیا نے اطلاع دی کہ کم ازکم 26 فوجی افسران بشمول دو جرنیلوں اور گیارہ کرنیلوں کے شام سے سرحد پار آ گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ جمعرات سے اب تک گیارہ ہزار سے زائد شامی تشدد سے بھاگ ہو کر سرحد عبور کرچکے ہیں، جو بیس ماہ سے جاری خانہ جنگی کے دوران لوگوں کی ایک بڑی نقل مکانی ہے۔
باور کیا جاتا ہے کہ تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار شامی پناہ گزین اس وقت ترکی میں موجود ہیں۔ مظاہرین کے خلاف صدر بشارالاسد کی حکومت کے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں شام میں شروع ہونے والی بھرپور خانہ جنگی میں 36 ہزار سے زائد لوگ مارے جاچکے ہیں۔
برطانیہ میں قائم ’شامی آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ نے بتایا ہے کہ چند منٹ کے وقفوں سے یکے بعد دیگرے ہونے والے دو بم دھماکوں کا ہدف دارا نامی علاقے میں ایک فوجی کیمپ تھا۔
تنظیم کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ دھماکوں میں متعدد افراد زخمی ہوئے اور ہلاکتوں میں اضافے کا امکان ہے۔
ایک ایسے وقت جب ملک میں تشدد کا سلسلہ جاری ہے اور مزید فوجی افسران منحرف ہو کر ترکی فرار ہو گئے ہیں، شام کے صدر بشارالاسد کا اصرار ہے کہ اُنھیں اب بھی شامی عوام اور فوج کی حمایت حاصل ہے۔
شامی حکومت کی افواج جمعہ کو جب باغیوں کے ٹھکانوں پر زبردست بمباری کر رہی تھیں، ترکی کے سرکاری میڈیا نے اطلاع دی کہ کم ازکم 26 فوجی افسران بشمول دو جرنیلوں اور گیارہ کرنیلوں کے شام سے سرحد پار آ گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ جمعرات سے اب تک گیارہ ہزار سے زائد شامی تشدد سے بھاگ ہو کر سرحد عبور کرچکے ہیں، جو بیس ماہ سے جاری خانہ جنگی کے دوران لوگوں کی ایک بڑی نقل مکانی ہے۔
باور کیا جاتا ہے کہ تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار شامی پناہ گزین اس وقت ترکی میں موجود ہیں۔ مظاہرین کے خلاف صدر بشارالاسد کی حکومت کے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں شام میں شروع ہونے والی بھرپور خانہ جنگی میں 36 ہزار سے زائد لوگ مارے جاچکے ہیں۔